YouVersion Logo
تلاش

ذہن کا میدانِ جنگ مسیحی کتابچہنمونہ

ذہن کا میدانِ جنگ مسیحی کتابچہ

8 دن 14 میں سے

اپنی خواہش کے مطابق حاصل کرنا

سارے دِل سے خُداوند پر توکل کر اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔ اپنی سب راہوں میں اُس کو پہچان اور وہ تیری راہنمائی کرے گا۔ (امثال ۳ : ۵ ۔ ۶)

عموماً مجھے پتہ ہوتا ہے کہ مجھے کیا چاہیے اورمیں اُسے حاصل کرنا چاہتی ہوں۔ میں بالکل دوسرے لوگوں کی مانند ہوں۔ جب ہمیں وہ نہیں ملتا جو ہم چاہتے ہیں ہمارے منفی احساسات بھڑک اٹھتے ہیں۔ (اور یاد رکھیں کہ یہ احساسات سوچوں سے شروع ہوتے ہیں۔)

’’میں کچھ کپڑے خریدنے کافی دور تک گئی لیکن وہ مجھے پورے نہیں تھے؟‘‘

’’آپ کا کیا مطلب ہے کہ کوئی ایچ ڈی۔ٹی .وی باقی نہیں بچا؟ آپ نے اخبار میں اشتہار تو دیا تھا۔‘‘

ہم میں سے اکثر لوگ اس طرح ہی ہیں ۔۔۔۔۔۔ جب ہمیں وہ نہیں ملتا جو ہم چاہتے ہیں، ہم اپنے ارد گرد رہنے والے لوگوں کو پریشان کردیتے ہیں۔ یہ باتیں ہم اسکول میں نہیں سیکھتے ۔۔۔۔۔۔ یہ ہمارے اندر ہی موجود ہوتی ہیں۔

جب میں مندرجہ بالا جملہ تحریر کررہی تھی، تو مجھے ایک واقعہ یاد آگیا۔ ایک نوجوان خاتون سٹور میں اپنے بچّے کی گاڑی کو دھکیلتے ہوئے اس جگہ پہنچی جہاں سیرل رکھے ہوئے تھے۔ اس کے بچّے نے ایک ڈبہ کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے ضد کرنا شروع کردی کہ ’’مجھےیہ چاہیے! مجھے یہ چاہیے!‘‘ وہ دوسال سے بھی کم عمر کا تھا۔

’’نہیں،‘‘ ماں نے جواب دیا۔ ’’ہمارے گھرمیں یہ بہت ہیں۔‘‘ اس نے دوسرا سیرل کا ڈبہ اپنی گاڑی میں رکھ لیا۔ 

’’مجھے وہی چاہیے! مجھے چاہیے!‘‘ اس بچّے نے کہا۔ جب اسے کوئی جواب نہ ملا تو اس نے ٹانگیں مارنا اور چلانا شروع کردیا۔ ماں نے ہمت نہیں ہاری بلکہ سمجھداری سے اس بچّے کو دوسری طرف لے گئی اور اس کی توجہ وہاں سے ہٹا دی۔

جب میں نے یہ دیکھا تو سوچا، اکثر ہم سب اِسی طرح کرتے ہیں۔ ہم فیصلہ کرتے ہیں کہ ہمیں کیا چاہیے اور جب ہمیں نہیں ملتا ہم غصہ میں آجاتے ہیں۔

’’جیک اور مجھے ایک پروموشن کی اُمید تھی۔ میں اس کمپنی میں زیادہ عرصہ سے کام کررہی تھی اور میرے سیل کی مقدار زیادہ تھی،‘‘ ڈونہ نے کہا۔ ’’وہ جگہ میری تھی لیکن میری جگہ اُسے ترقی مل گئی۔‘‘

’’میرے فائنل مضمون کے امتحان میں میرے ۹۸ نمبر تھے،‘‘ اینجی نے کہا۔ ’’اگر میں مزید ۱۰۰ نمبر لے لیتی ہوں تو میری جی.پی. 4.0 ہوجائے گی اور میں اوّل پوزیشن پرآجاوٗں گی۔ لیکن میں نے امتحان میں صرف ۸۳ نمبر حاصل کئے اور کلاس میں میری پوزیشن پانچویں نمبر پر آگئی۔ میرے ۱۰۰ نمبر آنے چاہیے تھے لیکن میرے اُستاد مجھے پسند نہیں کرتے۔‘‘

اس مسئلہ پر مزید غور کریں گے۔ مندرجہ بالا جن افراد کا ذکر کیا گیا ہے انہیں اپنی خواہش کے مطابق نہ ملا:’’ میں اس کے لائق تھا/تھی لیکن مجھے وہ نہیں ملا۔‘‘

بہت دفعہ مسیحی ہوتے ہوئے ہم توقع کرتے ہیں کہ زندگی کامل ہوگی اور ہمارے لئے ہر کام بڑا آسان ہوگا۔ ہم ترقی، خوشی، شادمانی، اطمینان اور ہر چیز کی توقع کرتے ہیں۔ جب ہم ناکام ہوجاتے ہیں تو ہم ناراض ہوجاتے اور شکایت کرنے لگتے ہیں۔

اگرچہ خُدا ہمیں اچھّی زندگی دینا چاہتا ہے لیکن ایسے مواقع آئیں گے جب ہمیں صبر کرنا ہوگا اور جب ہماری مرضی پوری نہ ہو اس وقت برداشت کرنا ہوگا۔ یہ نااُمیدیاں ہمارے کردار اور روحانی بلوغت کا امتحان لیتی ہیں۔ یہ دراصل ہم پر ظاہر کرتی ہیں کہ کیا ہم ترقی کے لئے تیار ہیں یا نہیں۔

ہم یہ کیوں سوچتے ہیں کہ ہمیشہ اوّل آنا ہمارا حق ہے جب کہ دوسروں کو ہم سے کم درجہ پر ہونا چاہیے؟ ہم یہ کیوں سوچتے ہیں کہ ہمیں کامل زندگی ملنی چاہیئے؟ شاید ہم کبھی کبھار خود کوضرورت سے زیادہ اعلیٰ سمجھتے ہیں۔ فروتن دِل ہمیں پیچھے رہ کر خدا کا انتظار کرنے کے قابل بناتا ہے تاکہ وہ ہمیں آگے بڑھائے۔ خُدا کا کلام کہتا ہے کہ ہم اِیمان اور صبر سے خُدا کے وعدوں کو حاصل کرتےہیں۔ خُدا پر اِیمان رکھنا اچھّا ہے لیکن جب زندگی میں مشکلات ہوں توکیا ہم اُس وقت بھی خُدا پر اِیمان اور بھروسہ رکھنا جاری رکھ سکتے ہیں؟

شیطان ہماری سوچوں سے کھیلتا ہے۔ زیادہ تر ابلیس ہم سے منفی باتیں کرتا ہے: ’’تم اس کے لائق نہیں ہو؛ تم بے کار ہو؛ تم بے وقوف ہو۔‘‘ کبھی کبھی وہ مخلتف چال چلتا ہے: وہ ہم سے کہتا ہے کہ ہم بہت کام کرتے ہیں اور ہم زیادہ حق رکھتے ہیں۔ اگر ہم اُس کی سُنیں اوریقین کریں توہمیں ایسا محسوس ہوگا کہ ہم سے دھوکہ ہورہا ہےاور لوگ ہمارا فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔

جب ہمیں وہ نہیں ملتا جو ہم چاہتے ہیں، ہم ٹوٹ جاتے ہیں یہ کہتے ہوئے ’’میں اس کے لائق تھا/تھی!‘‘ ہم نہ صرف اپنے باس، استاد یا کسی اور سے ناراض ہوجاتے ہیں بلکہ کبھی کبھار خُدا سے بھی ناراض ہوجاتے ہیں کیونکہ ہمیں وہ نہیں ملا جو ہماری سوچ کے مطابق ہمیں ملنا چاہیئے تھا۔

جب ہمیں ہماری خواہش کے مطابق نہیں ملتا اس وقت سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ ہم سوچتے ہیں کہ ہم اس کے لائق ہیں۔ کیونکہ خود ترسی داخل ہوجاتی ہے۔ ہم یہ رویہ اپنا سکتے ہیں یا ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ ہمارے پاس ایک چناوٗ ہے۔ زندگی جیسی بھی ہے مجھے اس کو چننا ہے یا میں شکایت کرسکتا/ سکتی ہوں کیونک میں کامل نہیں ہوں۔

میں یوناہ کی کہانی کے بارے میں سوچتی ہوں ۔۔۔۔۔۔ بڑی مچھلی کی کہانی نہیں ۔۔۔۔۔۔ لیکن وہ کہانی جو اس کے بعد کی ہے۔ اس نے اعلان کیا کہ چالیس دِن میں خُدا نینوہ کے شہر کو تباہ کردے گا لیکن جب لوگوں نے توبہ کی تو خُدا نے اُن کی پکار کو سُنا ، یوناہ ناراض ہوگیا۔ ’’اَب اَے خُداوند میں تیری منِت کرتا ہوں کہ میری جان لے لے کیونکہ میرے اس جینے سے مر جانا بہتر ہے‘‘ (یوناہ ۴ : ۳)۔

افسوس کی بات ہے، ہے نہ؟ یوناہ کو ۱۲۰،۰۰۰ لوگوں کی نجات سے خوش ہونا چاہیے تھا۔ ہمارے حالات اس قدر ڈرامائی تو نہیں ہوتے لیکن بہت سے لوگ بیٹھ کر خود پرصرف افسوس کرتے ہیں اور خُدا کی نہیں بلکہ ابلیس کی آواز سنتے ہیں جب کہ ہر حالت میں خُدا پر بھروسہ کرنا چاہیے۔

مسیحی زندگی کا راز یہ ہے کہ ہم اپنی زندگیاں خُدا کے لئے پورے طور پر مخصوص کردیں۔ اگر ہم اپنی مرضی خُدا کے سپرد کردیں گے جو بھی ہو گا ہم اُس سے ناراض نہیں ہوں گے۔ اگر خدا ہماری مرضی کے مطابق ہمیں نہیں دے گا توبھی ہمارا ایمان اتنا مضبوط ہوگا کہ ہم یہ کہہ سکیں ، ’’میری نہیں بلکہ تیری مرضی پوری ہو۔‘‘

اَےخُدا میری مدد کر۔ اکثر میرے اندر شدید خواہشات پیدا ہوتی ہیں اور جب مجھے میری مرضی کے مطابق نہیں ملتا تو میں پریشان ہوجاتا/جاتی ہوں۔ مجھ معاف فرما۔ مجھے یاد دلا کہ خُداوند یسوع صلیب پرمرنا نہیں چاہتا تھا لیکن اس نے تیری مرضی کی مکمل فرمانبرداری کی ۔ میں دُعا کرتا/ کرتی ہوں کہ خُداوند یسوع مسیح کے وسیلہ سے میری مدد کر کہ میں پوری فرمانبرداری میں زندگی بسر کروں اور جو تو مجھےدے اس سے مطمئین رہوں۔ آمین۔ 

دِن 7دِن 9

مطالعاتی منصوبہ کا تعارف

ذہن کا میدانِ جنگ مسیحی کتابچہ

یہ کتابچہ آپ کو اُمید کے کلام سے لیس کردے گا تاکہ آپ غصّہ، اُلجھن، الزام، خوف، شک ... اور اس کے علاوہ بےشمار باتوں پر فتح پاسکیں۔ یہ پیغامات دشمن کے اس منصوبہ کو بے نقاب کرنے میں جو وہ آپ کو الجھانے اور آپ سےجھوٹ بولنے کے لئے بناتا ہے، سوچ کے تباہ کن سلسلہ کو روکنے، اپنی سوچ کو تبدیل کرنے میں کامیابی پانے، قوت حاصل کرنے

More

ہم یہ منصوبہ مہیا کرنے پر جوائس میئر کی وزارتوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیں گے۔ مزید معلومات کے لئے ، براہ کرم ملاحظہ کریں: https://tv.joycemeyer.org/urdu/