YouVersion Logo
تلاش

2 شموایلؔ 13

13
امنُونؔ اَور تامارؔ
1اِسی دَوران داویؔد کا بیٹا امنُونؔ تامارؔ پر عاشق ہو گیا۔ وہ داویؔد کے بیٹے اَبشالومؔ کی بہن تھی اَور بڑی خُوبصورت تھی۔
2امنُونؔ اَپنی بہن تامارؔ کی وجہ سے اِس قدر مایوس ہُوا کہ بیمار پڑ گیا کیونکہ وہ کنواری تھی اَور اُسے اُس کے ساتھ کچھ کرنا دشوار مَعلُوم ہو رہاتھا۔
3اَور داویؔد کے بھایٔی شِمعہؔ کا بیٹا یوُنادابؔ امنُونؔ کا دوست تھا۔ یوُنادابؔ بڑا ہوشیار تھا۔ 4اُس نے امنُونؔ سے پُوچھا، ”تُم تو بادشاہ کے بیٹے ہو پھر روز بروز تمہارا مُنہ کیوں اُترتا جا رہاہے؟ کیا تُم مُجھے نہیں بتاؤ گے؟“
امنُونؔ نے اُس سے کہا، ”مُجھے اَپنے بھایٔی اَبشالومؔ کی بہن تامارؔ سے مَحَبّت ہو گئی ہے۔“
5یوُنادابؔ نے اُس سے کہا، ”تُم اَپنے بِستر پر لیٹ جاؤ اَور بیمار ہونے کا بہانہ کر لو، اَور جَب تیرا باپ تُجھے دیکھنے آئے تو اُسے کہنا، ’میری درخواست ہے کہ تُم مہربانی کرکے میری بہن تامارؔ کو آنے دے تاکہ وہ مُجھے کھانا کھِلائے۔ اُسے میرے سامنے کھانا بنانے کی اِجازت دے تاکہ میں اُسے دیکھتا رہُوں اَور پھر اُس ہی کے ہاتھ سے کھانا کھاؤں۔‘ “
6لہٰذا امنُونؔ لیٹ گیا اَور بیماری کا بہانہ کر لیا۔ جَب بادشاہ اُسے دیکھنے آیا تو امنُونؔ نے اُس سے کہا، ”مہربانی کرکے میری بہن تامارؔ کو آنے دیں کہ وہ میری نظروں کے سامنے کچھ ٹکیاں بنائے تاکہ میں اُس کے ہاتھ سے کھاؤں۔“
7داویؔد نے محل میں تامارؔ کو پیغام بھیجا: ”اَپنے بھایٔی امنُونؔ کے گھر جا اَور اُس کے لیٔے کچھ کھانا تیّار کر۔“ 8لہٰذا تامارؔ اَپنے بھایٔی امنُونؔ کے گھر گئی۔ وہ بِستر پر پڑا ہُوا تھا۔ اُس نے کچھ آٹا لیا۔ اُسے گوندھا اَور امنُونؔ کی نظروں کے سامنے ٹکیاں پکائیں۔ 9پھر اُس نے اُنہیں طشتری میں رکھ کر اُس کے سامنے رکھا مگر اُس نے کھانے سے اِنکار کر دیا۔
امنُونؔ نے کہا، ”یہاں سے ہر ایک کو باہر بھیج دو۔“ جَب سَب چلے گیٔے 10تو امنُونؔ نے تامارؔ سے کہا، ”کھانا میری خواب گاہ میں لے آ اَور مُجھے اَپنے ہاتھ سے کھِلا۔“ تامارؔ اُن ٹکیوں کو اُٹھاکر اَپنے بھایٔی امنُونؔ کی خواب گاہ میں لے گئی۔ 11لیکن جَب وہ اُنہیں لے کر اُس کے پاس گئی کہ وہ کھائے تو اُس نے جھپٹ کر اُسے پکڑ لیا اَور کہا، ”اَے میری بہن، میرے ساتھ لیٹ جا۔“
12اُس نے اُس سے کہا، ”نہیں میرے بھایٔی، میرے ساتھ زبردستی مت کر کیونکہ اِسرائیلیوں میں اَیسا کام نہیں ہونا چاہئے! اَیسی بدی مت کرو۔ 13میرا کیا ہوگا؟ میں تو بُری طرح رُسوا ہو جاؤں گی اَور تیرا کیا ہوگا؟ تُو اِسرائیل میں ایک بدکار احمق کی مانند گِنا جائے گا۔ مہربانی کرکے بادشاہ سے بات کر۔ وہ مُجھے تیرے ساتھ شادی کرنے سے نہ روکے گا۔“ 14لیکن اُس نے اُس کی ایک نہ سُنی اَور چونکہ وہ اُس سے زِیادہ طاقتور تھا اِس لیٔے اُس نے زبردستی کرکے اُس کی عزّت لُوٹ لی۔
15جَب امنُونؔ اَپنی ہَوس پُوری کر چُکا اُس کی مَحَبّت جِتنی تھی اِس سے کیٔی گُنا نفرت میں بدل گئی۔ لہٰذا امنُونؔ نے اُس سے کہا، ”اُٹھ اَور یہاں سے نکل جا!“
16تامارؔ نے کہا، ”نہیں! مُجھے یہاں سے نکالنا اُس ظُلم سے کہیں بڑھ کر ہوگا جو تُونے پہلے مُجھ پر کیا ہے۔“
لیکن اُس نے اُس کی ایک نہ سُنی۔ 17اَور اَپنے ذاتی نوکر کو بُلاکر کہا، ”اِس عورت کو یہاں سے باہر نکال دے اَور دروازہ اَندر سے بند کر دے۔“ 18نوکر نے اُس کو باہر نکال دیا اَور اُس کے پیچھے دروازہ کی چٹخنی لگا دی۔ وہ کشیدہ کاری والا جوڑا پہنے ہُوئے تھی کیونکہ شاہی دوشیزائیں اِسی قِسم کا لباس پہنتی تھیں۔ 19تامارؔ نے اَپنے سَر پر خاک ڈال لی اَور کشیدہ کاری والا لباس جو وہ پہنے ہُوئے تھی پھاڑ ڈالا اَور سَر پر ہاتھ رکھ کر زار زار روتی ہُوئی باہر چلی گئی۔
20اُس کے بھایٔی اَبشالومؔ نے اُس سے کہا، ”کیا تیرے بھایٔی امنُونؔ نے تیرے ساتھ زبردستی کی ہے؟ بہن! اَب چُپ ہو جا کیونکہ وہ تیرا بھایٔی ہے اَور اِس بات کا غم نہ کر۔“ اَور تامارؔ اَپنے بھایٔی اَبشالومؔ کے گھر میں ایک بدنصیب عورت کی طرح پڑی رہی۔
21جَب داویؔد بادشاہ نے یہ سَب باتیں سُنیں تو اُس کے غُصّہ کی کویٔی اِنتہا نہ رہی۔ 22اَور اَبشالومؔ نے امنُونؔ کو کچھ بُرا بھلا تو نہ کہا لیکن امنُونؔ سے نفرت کرنے لگا کیونکہ اُس نے اُس کی بہن تامارؔ کی عزّت لُوٹی تھی۔
اَبشالومؔ کا امنُونؔ کو قتل کرنا
23دو سال بعد جَب اَبشالومؔ کی بھیڑوں کے بال کترنے والے اِفرائیمؔ کی سرحد کے نزدیک بَعل حَصورؔ میں تھے تو اُس نے بادشاہ کے سَب بیٹوں کو وہاں آنے کی دعوت دی۔ 24اَبشالومؔ نے بادشاہ کے پاس جا کر کہا، ”آپ کے خادِم کے پاس بھیڑوں کے بال کترنے والے آ گیٔے ہیں۔ کیا بادشاہ اَور اُس کے حاکم تشریف لاکر خادِم کو ممنون فرمائیں گے؟“
25بادشاہ نے جَواب دیا: بیٹا! نہیں، ہم سَب کو نہیں جانا چاہئے کیونکہ ہم تُجھ پر بوجھ نہیں بننا چاہتے۔ حالانکہ اَبشالومؔ نے اُسے بہت ترغِیب دی پھر بھی اُس نے اِنکار کیا مگر اُس کے حق میں دعا ضروُر فرمائی۔
26تَب اَبشالومؔ نے کہا، ”اگر نہیں تو براہِ کرم میرے بھایٔی امنُونؔ کو ہی میرے ساتھ جانے دیں۔“
بادشاہ نے اُس سے پُوچھا، ”کیا اُس کا جانا ضروُری ہے؟“
27لیکن جَب اَبشالومؔ ضِد کرنے لگا تو اُس نے امنُونؔ اَور دیگر بادشاہ کے شہزادوں کو اُس کے ساتھ بھیج دیا۔
28اَبشالومؔ نے اَپنے آدمیوں کو حُکم دیا کہ، ”سُنو! جَب امنُونؔ مَے پی کر بے خُود ہو جائے اَور مَیں تُمہیں کہُوں کہ امنُونؔ کو مارو تو تُم اُسے مار ڈالنا۔ اَور خوف نہ کرنا۔ کیا مَیں تُمہیں حُکم نہیں دے رہا ہُوں؟ پس ہمّت سے کام لینا اَور بہادر بننا۔“ 29لہٰذا اَبشالومؔ کے آدمیوں نے امنُونؔ کے ساتھ وُہی کیا جِس کا اَبشالومؔ نے حُکم دیا تھا۔ تَب بادشاہ کے تمام شہزادے اُٹھ کھڑے ہُوئے اَور اَپنے خچّروں پر سوار ہوکر بھاگ نکلے۔
30وہ ابھی راستہ ہی میں تھے کہ داویؔد کو اِطّلاع مِلی: ”اَبشالومؔ نے بادشاہ کے تمام شہزادوں کو مار گرایا ہے اَور اُن میں سے کویٔی بھی باقی نہیں بچا ہے۔“ 31یہ سُن کر بادشاہ اُٹھ کھڑا ہُوا، اُس نے اَپنے کپڑے پھاڑ ڈالے اَور زمین پر لیٹ گیا اَور اُس کے تمام مُلازم بھی اَپنے اَپنے کپڑے پھاڑ کر اُس کے پاس کھڑے ہو گئے۔
32لیکن داویؔد کے بھایٔی شِمعہؔ کے بیٹے یوُنادابؔ نے کہا، ”میرا آقا یہ نہ سوچے کہ بادشاہ کے تمام شہزادے مار ڈالے گیٔے ہیں۔ صِرف امنُونؔ ہی مَرا ہے کیونکہ اُس دِن سے جَب امنُونؔ نے اُس کی بہن تامارؔ کی عصمت دری کی تھی، اَبشالومؔ نے اُسے مار ڈالنے کا پکّا اِرادہ کر لیا تھا۔ 33سو میرے آقا بادشاہ کو اِس اِطّلاع سے کہ تمام شہزادے مار ڈالے گیٔے ہیں، پریشان نہیں ہونا چاہئے کیونکہ صِرف امنُونؔ ہی مَرا ہے۔“
34اِسی دَوران اَبشالومؔ بھاگ گیا۔
اُس آدمی نے جو پہرا دے رہاتھا، ”نگاہ کی تو دیکھا کہ مغرب کی طرف پہاڑی کے دامن میں راستہ پر بہت سے آدمی چلے آ رہے ہیں۔ اُس نے جا کر بادشاہ کو بتایا کہ مَیں نے پہاڑی کے دامن میں حُورونایمؔ کی طرف آدمی دیکھے ہیں۔“
35تَب یوُنادابؔ نے بادشاہ سے کہا، ”دیکھو بادشاہ کے شہزادے آ گیٔے اَور جَیسا آپ کہ خادِم نے کہاتھا بالکُل وَیسا ہی ہُوا۔“
36جوں ہی اُس نے اَپنی بات ختم کی شہزادے آ پہُنچے اَور آہ و زاری کرنے لگے اَور بادشاہ اَور اُس کے سَب مُلازم بھی زار زار رُوئے۔
37اَبشالومؔ بھاگ کر گیشُور کے بادشاہ عمّیہُوؔد کے بیٹے تلمی کے پاس چلا گیا اَور داویؔد اَپنے بیٹے کے لیٔے عرصہ تک ماتم کرتا رہا۔
38اَبشالومؔ بھاگ کر گیشُور جانے کے بعد تین سال تک وہیں رہا۔ 39داویؔد بادشاہ کے دِل میں اَبشالومؔ تک پہُنچنے کی بڑی آرزُو تھی کیونکہ وہ امنُونؔ کی موت کے غم سے تسلّی پاچُکا تھا۔

موجودہ انتخاب:

2 شموایلؔ 13: UCV

سرخی

شئیر

کاپی

None

کیا آپ جاہتے ہیں کہ آپ کی سرکیاں آپ کی devices پر محفوظ ہوں؟ Sign up or sign in