مرقس 12:6-56
مرقس 12:6-56 کِتابِ مُقادّس (URD)
اور اُنہوں نے روانہ ہو کر مُنادی کی کہ تَوبہ کرو۔ اور بُہت سی بدرُوحوں کو نِکالا اور بُہت سے بِیماروں کو تیل مَل کر اچّھا کِیا۔ اور ہیرودؔیس بادشاہ نے اُس کا ذِکر سُنا کیونکہ اُس کا نام مشہُور ہو گیا تھا اور اُس نے کہا کہ یُوحنّا بپتِسمہ دینے والا مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے کیونکہ اُس سے مُعجِزے ظاہِر ہوتے ہیں۔ مگر بعض کہتے تھے کہ ایلیّاؔہ ہے اور بعض یہ کہ نبِیوں میں سے کِسی کی مانِند ایک نبی ہے۔ مگر ہیرودؔیس نے سُن کر کہا کہ یُوحنّا جِس کا سر مَیں نے کٹوایا وُہی جی اُٹھا ہے۔ کیونکہ ہیرودؔیس نے آپ آدمی بھیج کر یُوحنّا کو پکڑوایا اور اپنے بھائی فِلپُّس کی بِیوی ہیرودِؔیاس کے سبب سے اُسے قَید خانہ میں باندھ رکھّا تھا کیونکہ ہیرودؔیس نے اُس سے بیاہ کر لِیا تھا۔ اور یُوحنّا نے اُس سے کہا تھا کہ اپنے بھائی کی بِیوی کو رکھنا تُجھے روا نہیں۔ پس ہیرودِؔیاس اُس سے دُشمنی رکھتی اور چاہتی تھی کہ اُسے قتل کرائے مگر نہ ہو سکا۔ کیونکہ ہیرودؔیس یُوحنّا کو راست باز اور مُقدّس آدمی جان کر اُس سے ڈرتا اور اُسے بچائے رکھتا تھا اور اُس کی باتیں سُن کر بُہت حَیران ہو جاتا تھا مگر سُنتا خُوشی سے تھا۔ اور مَوقع کے دِن جب ہیرودؔیس نے اپنی سالگِرہ میں اپنے امِیروں اور فَوجی سرداروں اور گلِیل کے رئِیسوں کی ضِیافت کی۔ اور اُسی ہیرودِؔیاس کی بیٹی اندر آئی اور ناچ کر ہیرودؔیس اور اُس کے مِہمانوں کو خُوش کِیا تو بادشاہ نے اُس لڑکی سے کہا جو چاہے مُجھ سے مانگ۔ مَیں تُجھے دُوں گا۔ اور اُس سے قَسم کھائی کہ جو تُو مُجھ سے مانگے گی اپنی آدھی سلطنت تک تُجھے دُوں گا۔ اور اُس نے باہر جا کر اپنی ماں سے کہا کہ مَیں کیا مانگُوں؟ اُس نے کہا یُوحنّا بپتِسمہ دینے والے کا سر۔ وہ فی الفَور بادشاہ کے پاس جلدی سے اندر آئی اور اُس سے عرض کی مَیں چاہتی ہُوں کہ تُو یُوحنّا بپتِسمہ دینے والے کا سر ایک تھال میں ابھی مُجھے منگوا دے۔ بادشاہ بُہت غمگِین ہُؤا مگر اپنی قَسموں اور مِہمانوں کے سبب سے اُس سے اِنکار کرنا نہ چاہا۔ پس بادشاہ نے فی الفَور ایک سِپاہی کو حُکم دے کر بھیجا کہ اُس کا سر لائے۔ اُس نے جا کر قَید خانہ میں اُس کا سر کاٹا۔ اور ایک تھال میں لا کر لڑکی کو دِیا اور لڑکی نے اپنی ماں کو دِیا۔ پِھر اُس کے شاگِرد سُن کر آئے اور اُس کی لاش اُٹھا کر قبر میں رکھّی۔ اور رسُول یِسُوعؔ کے پاس جمع ہُوئے اور جو کُچھ اُنہوں نے کِیا اور سِکھایا تھا سب اُس سے بیان کِیا۔ اُس نے اُن سے کہا تُم آپ الگ وِیران جگہ میں چلے آؤ اور ذرا آرام کرو۔ اِس لِئے کہ بُہت لوگ آتے جاتے تھے اور اُن کو کھانا کھانے کی بھی فُرصت نہ مِلتی تھی۔ پس وہ کشتی میں بَیٹھ کر الگ ایک وِیران جگہ میں چلے گئے۔ اور لوگوں نے اُن کو جاتے دیکھا اور بُہتیروں نے پہچان لِیا اور سب شہروں سے اِکٹّھے ہو کر پَیدل اُدھر دَوڑے اور اُن سے پہلے جا پُہنچے۔ اور اُس نے اُتر کر بڑی بِھیڑ دیکھی اور اُسے اُن پر ترس آیا کیونکہ وہ اُن بھیڑوں کی مانِند تھے جِن کا چرواہا نہ ہو اور وہ اُن کو بُہت سی باتوں کی تعلِیم دینے لگا۔ جب دِن بُہت ڈھل گیا تو اُس کے شاگِرد اُس کے پاس آ کر کہنے لگے یہ جگہ وِیران ہے اور دِن بُہت ڈھل گیا ہے۔ اِن کو رُخصت کر تاکہ چاروں طرف کی بستِیوں اور گاؤں میں جا کر اپنے لِئے کُچھ کھانے کو مول لیں۔ اُس نے اُن سے جواب میں کہا تُم ہی اِنہیں کھانے کو دو۔ اُنہوں نے اُس سے کہا کیا ہم جا کر دو سَو دِینار کی روٹِیاں مول لائیں اور اِن کو کِھلائیں؟ اُس نے اُن سے کہا تُمہارے پاس کِتنی روٹِیاں ہیں؟ جاؤ دیکھو۔ اُنہوں نے دریافت کر کے کہا پانچ اور دو مچھلِیاں۔ اُس نے اُن کو حُکم دِیا کہ سب ہری گھاس پر دستہ دستہ ہو کر بَیٹھ جائیں۔ پس وہ سَو سَو اور پچاس پچاس کی قطاریں باندھ کر بَیٹھ گئے۔ پِھر اُس نے وہ پانچ روٹِیاں اور دو مچھلِیاں لِیں اور آسمان کی طرف دیکھ کر برکت دی اور روٹِیاں توڑ کر شاگِردوں کو دیتا گیا کہ اُن کے آگے رکھّیں اور وہ دو مچھلِیاں بھی اُن سب میں بانٹ دِیں۔ پس وہ سب کھا کر سیر ہو گئے۔ اور اُنہوں نے ٹُکڑوں اور مچھلیوں سے بارہ ٹوکرِیاں بھر کر اُٹھائِیں۔ اور کھانے والے پانچ ہزار مرد تھے۔ اور فی الفَور اُس نے اپنے شاگِردوں کو مجبُور کِیا کہ کشتی پر بَیٹھ کر اُس سے پہلے اُس پار بَیت صیدا کو چلے جائیں جب تک وہ لوگوں کو رُخصت کرے۔ اور اُن کو رُخصت کر کے پہاڑ پر دُعا کرنے چلا گیا۔ اور جب شام ہُوئی تو کشتی جِھیل کے بِیچ میں تھی اور وہ اکیلا خُشکی پر تھا۔ جب اُس نے دیکھا کہ وہ کھینے سے بُہت تنگ ہیں کیونکہ ہوا اُن کے مُخالِف تھی تو رات کے پِچھلے پہر کے قرِیب وہ جِھیل پر چلتا ہُؤا اُن کے پاس آیا اور اُن سے آگے نِکل جانا چاہتا تھا۔ لیکن اُنہوں نے اُسے جِھیل پر چلتے دیکھ کر خیال کِیا کہ بُھوت ہے اور چِلاّ اُٹھے۔ کیونکہ سب اُسے دیکھ کر گھبرا گئے تھے مگر اُس نے فی الفَور اُن سے باتیں کِیں اور کہا خاطِر جمع رکھّو۔ مَیں ہُوں۔ ڈرو مت۔ پِھر وہ کشتی پر اُن کے پاس آیا اور ہوا تھم گئی اور وہ اپنے دِل میں نِہایت حَیران ہُوئے۔ اِس لِئے کہ وہ روٹِیوں کے بارے میں نہ سمجھے تھے بلکہ اُن کے دِل سخت ہو گئے تھے۔ اور وہ پار جا کر گنّیسرؔت کے عِلاقہ میں پُہنچے اور کشتی گھاٹ پر لگائی۔ اور جب کشتی پر سے اُترے تو فی الفَور لوگ اُسے پہچان کر۔ اُس سارے عِلاقہ میں چاروں طرف دَوڑے اور بِیماروں کو چارپائِیوں پر ڈال کر جہاں کہِیں سُنا کہ وہ ہے وہاں لِئے پِھرے۔ اور وہ گاؤں۔ شہروں اور بستِیوں میں جہاں کہِیں جاتا تھا لوگ بِیماروں کو بازاروں میں رکھ کر اُس کی مِنّت کرتے تھے کہ وہ صِرف اُس کی پوشاک کا کنارہ چُھو لیں اور جِتنے اُسے چُھوتے تھے شِفا پاتے تھے۔
مرقس 12:6-56 اُردو ہم عصر ترجُمہ (UCV)
چنانچہ وہ روانہ ہویٔے اَور مُنادی کرنے لگے کہ تَوبہ کرو۔ اُنہُوں نے بہت سِی بَدرُوحوں کو نکالا اَور بہت سے بیِماروں کو تیل مَل کر شفا بخشی۔ ہیرودیسؔ بادشاہ نے حُضُور عیسیٰ کا ذِکر سُنا، کیونکہ اُن کا نام کافی مشہُور ہو چُکاتھا۔ بعض لوگ کہتے تھے، ”حضرت یحییٰ پاک غُسل دینے والے مُردوں میں سے جی اُٹھے ہیں، اَور اِسی لیٔے تو اُن میں معجزے دکھانے کی قُدرت ہے۔“ مگر بعض کہتے تھے، ”وہ ایلیاؔہ ہیں۔“ اَور بعض لوگوں کا کہنا تھا، ”وہ پُرانے نَبیوں جَیسے ایک نبی ہیں۔“ جَب ہیرودیسؔ نے یہ سُنا، تو اُس نے کہا، ”یحییٰ پاک غُسل دینے والا جِس کا میں نے سَر قلم کروا دیا تھا، پھر سے جی اُٹھا ہے!“ اصل میں ہیرودیسؔ نے حضرت یحییٰ کو پکڑواکر قَید خانہ میں ڈال دیا تھا، وجہ یہ تھی کہ ہیرودیسؔ، نے اَپنے بھایٔی فِلِپُّسؔ کی بیوی، ہیرودِیاسؔ سے بیاہ کر لیا تھا۔ اَور حضرت یحییٰ ہیرودیسؔ سے کہہ رہے تھے، ”تُجھے اَپنے بھایٔی کی بیوی اَپنے پاس رکھنا جائز نہیں ہے۔“ ہیرودِیاسؔ بھی حضرت یحییٰ سے دُشمنی رکھتی تھی اَور اُنہیں قتل کروانا چاہتی تھی۔ لیکن موقع نہیں ملتا تھا، اِس لیٔے کہ حضرت یحییٰ، ہیرودیسؔ بادشاہ کی نظر میں ایک راستباز اَور پاک آدمی تھے۔ وہ اُن کا بڑا اِحترام کیا کرتاتھا اَور اُن کی حِفاظت کرنا اَپنا فرض سمجھتا تھا، وہ حضرت یحییٰ کی باتیں سُن کر پریشان تو ضروُر ہوتا تھا؛ لیکن سُنتا شوق سے تھا۔ لیکن ہیرودِیاسؔ کو ایک دِن موقع مِل ہی گیا۔ جَب ہیرودیسؔ نے اَپنی سال گِرہ کی خُوشی میں اَپنے اُمرائے دربار اَور فَوجی افسران اَور صُوبہ گلِیل کے رئیسوں کی دعوت کی۔ اِس موقع پر ہیرودِیاسؔ کی بیٹی نے محفل میں آکر رقص کیا، اَور ہیرودیسؔ بادشاہ اَور اُس کے مہمانوں کو اِس قدر خُوش کر دیا کہ بادشاہ اُس سے مُخاطِب ہوکر کہنے لگا۔ تو جو چاہے مُجھ سے مانگ لے، ”میں تُجھے دُوں گا۔“ بَلکہ اُس نے قَسم کھا کر کہا، ”جو کُچھ تو مُجھ سے مانگے گی، میں تُجھے دُوں گا چاہے وہ میری آدھی سلطنت ہی کیوں نہ ہو۔“ لڑکی نے باہر جا کر اَپنی ماں، سے پُوچھا، ”میں کیا مانگوں؟“ تَب اُس کی ماں نے جَواب دیا، ”یحییٰ پاک غُسل دینے والے کا سَر۔“ لڑکی فوراً بادشاہ کے پاس واپس آئی اَور عرض کرنے لگی: ”مُجھے ابھی ایک تھال میں یحییٰ پاک غُسل دینے والے کا سَر چاہیے۔“ بادشاہ کو بےحَد افسوس ہُوا، لیکن وہ مہمانوں کے سامنے قَسم دے چُکاتھا، اِس لیٔے بادشاہ لڑکی سے اِنکار نہ کر سَکا۔ چنانچہ بادشاہ نے اُسی وقت حِفاظتی دستہ کے ایک سپاہی کو حُکم دیا کہ وہ جائے، اَور حضرت یحییٰ کا سَر لے آئے۔ سپاہی نے قَید خانہ میں جا کر، حضرت یحییٰ کا سَر تن سے جُدا کیا، اَور اُسے ایک تھال میں رکھ کر لایا اَور لڑکی کے حوالہ کر دیا، اَور لڑکی نے اُسے لے جا کر اَپنی ماں کُودے دیا۔ جَب حضرت یحییٰ کے شاگردوں نے یہ خبر سنی تو وہ آئے اَور اُن کی لاش اُٹھاکر لے گیٔے اَور اُنہیں ایک قبر میں دفن کر دیا۔ حُضُور عیسیٰ کے پاس رسول واپس آئے اَورجو کُچھ اُنہُوں نے کام کیٔے اَور تعلیم سکھائی تھی اُن سَب کو آپ سے بَیان کیا۔ آپ نے اُن سے کہا، ”ہم کسی ویران اَور الگ جگہ پر چلیں اَور تھوڑی دیر آرام کریں، کیونکہ اُن کے پاس بہت سے لوگوں کی آمدورفت لگی رہتی تھی اَور اُنہیں کھانے تک کی فُرصت نہ ملتی تھی۔“ تَب حُضُور عیسیٰ کشتی میں بَیٹھ کر دُور ایک ویران جگہ کی طرف روانہ ہویٔے۔ لوگوں نے اُنہیں جاتے دیکھ لیا اَور پہچان لیا۔ اَور تمام شہروں کے لوگ اِکٹھّے ہوکر پیدل ہی دَوڑے اَور آپ سے پہلے وہاں پہُنچ گیٔے۔ جَب حُضُور عیسیٰ کشتی سے کنارے پر اُترے تو آپ نے ایک بَڑے ہُجوم کو دیکھا، اَور آپ کو اُن پر بڑا ترس آیا، کیونکہ وہ لوگ اُن بھیڑوں کی مانِند تھے جِن کا کویٔی گلّہ بان نہ ہو۔ لہٰذا وہ اُنہیں بہت سِی باتیں سِکھانے لگے۔ اِسی دَوران شام ہو گئی، اَور شاگردوں نے اُن کے پاس آکر کہا، ”یہ جگہ ویران ہے اَور دِن ڈھل چُکاہے۔ اِن لوگوں کو رخصت کر دیجئے تاکہ وہ آس پاس کی بستیوں اَور گاؤں میں چلے جایٔیں اَور خرید کر کُچھ کھا پی لیں۔“ لیکن حُضُور عیسیٰ نے جَواب میں کہا، ”تُم ہی اِنہیں کھانے کو دو۔“ شاگردوں نے کہا، ”کیا ہم جایٔیں اَور اُن کے کھانے کے لیٔے دو سَو دینار! کی روٹیاں خرید کر لائیں؟“ اُنہُوں نے پُوچھا، ”تمہارے پاس کتنی روٹیاں ہیں؟ جاؤ اَور دیکھو۔“ اُنہُوں نے دریافت کرکے، بتایا، ”پانچ روٹیاں اَور دو مچھلِیاں ہیں۔“ تَب حُضُور عیسیٰ نے لوگوں کو چھوٹی چھوٹی قطاریں بنا کر سبز گھاس پر بَیٹھ جانے کا حُکم دیا۔ اَور وہ سَو سَو اَور پچاس پچاس کی قطاریں بنا کر بَیٹھ گیٔے۔ حُضُور عیسیٰ نے وہ پانچ روٹیاں اَور دو مچھلِیاں لیں اَور آسمان، کی طرف نظر اُٹھاکر اُن پر برکت مانگی۔ پھر آپ نے اُن روٹیوں کے ٹکڑے توڑ کر شاگردوں کو دئیے اَور کہا کہ اِنہیں لوگوں کے سامنے رکھتے جایٔیں۔ اِسی طرح خُداوؔند نے دو مچھلِیاں بھی اُن سَب لوگوں میں تقسیم کر دیں۔ سَب لوگ کھا کر سیر ہو گئے، روٹیوں اَور مچھلِیوں کے ٹُکڑوں کی بَارہ ٹوکریاں بھر کر اُٹھائی گئیں۔ جِن لوگوں نے وہ روٹیاں کھائی تھیں اُن میں مَرد ہی پانچ ہزار تھے۔ لوگوں کو رخصت کرنے سے پہلے اُنہُوں نے شاگردوں پر زور دیا، تُم فوراً کشتی پر سوار ہوکر جھیل کے پار بیت صیؔدا چلے جاؤ، تاکہ میں یہاں لوگوں کو رخصت کر سکوں۔ اُنہیں رخصت کرنے کے بعد وہ دعا کرنے کے لیٔے ایک پہاڑی پر چَلےگئے۔ رات کے آخِر میں، کشتی جھیل کے درمیانی حِصّہ میں پہُنچ چُکی تھی، اَور وہ کنارے پر تنہا تھے۔ حُضُور عیسیٰ نے جَب دیکھا کہ ہَوا مُخالف ہونے کی وجہ سے شاگردوں کو کشتی کو کھینے میں بڑی مُشکِل پیش آرہی ہے۔ لہٰذا وہ رات کے چوتھے پہر کے قریب جھیل پر چلتے ہویٔے اُن کے پاس پہُنچے، اَور چاہتے تھے کہ اُن سے آگے نِکل جایٔیں، لیکن شاگردوں نے اُنہیں پانی پر چلتے، دیکھا تو آپ کو بھُوت سمجھ کر۔ شاگرد خُوب چِلّانے لگے، کیونکہ سَب اُنہیں دیکھ کربہت ہی زِیادہ خوفزدہ ہو گئے تھے۔ مگر آپ نے فوراً اُن سے بات کی اَور کہا، ”ہِمّت رکھو! میں ہُوں۔ ڈرو مت۔“ تَب وہ اُن کے ساتھ کشتی میں چڑھ گیٔے اَور ہَوا تھم گئی۔ شاگرد اَپنے دلوں میں نہایت ہی حیران ہویٔے، کیونکہ وہ روٹیوں کے معجزہ سے بھی کویٔی سبق نہ سیکھ پایٔے تھے؛ اَور اُن کے دل سخت کے سخت ہی رہے۔ وہ جھیل کو پار کرنے کے بعد، وہ گنیسرتؔ کے علاقہ میں پہُنچے اَور کشتی کو کنارے سے لگا دیا۔ جَب وہ کشتی سے اُترے تو لوگوں نے حُضُور عیسیٰ کو ایک دَم پہچان لیا۔ پس لوگ اُن کی مَوجُودگی کی خبر سُن کر ہر طرف سے دَوڑ پڑے اَور بیِماروں کو بچھونوں پر ڈال کر اُن کے پاس لانے لگے۔ اَور حُضُور عیسیٰ گاؤں یا شہروں یا بستیوں میں جہاں کہیں جاتے تھے لوگ بیِماروں کو بازاروں میں راستوں پر رکھ دیتے تھے۔ اَور اُن کی مِنّت کرتے تھے کہ اُنہیں صِرف اَپنی پوشاک، کا کنارہ چھُو لینے دیں اَور جتنے حُضُور عیسیٰ کو چھُو لیتے تھے۔ شفا پاجاتے تھے۔
مرقس 12:6-56 ہولی بائبل کا اردو جیو ورژن (URDGVU)
چنانچہ شاگرد وہاں سے نکل کر منادی کرنے لگے کہ لوگ توبہ کریں۔ اُنہوں نے بہت سی بدروحیں نکال دیں اور بہت سے مریضوں پر زیتون کا تیل مَل کر اُنہیں شفا دی۔ بادشاہ ہیرودیس انتپاس نے عیسیٰ کے بارے میں سنا، کیونکہ اُس کا نام مشہور ہو گیا تھا۔ کچھ کہہ رہے تھے، ”یحییٰ بپتسمہ دینے والا مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے، اِس لئے اِس قسم کی معجزانہ طاقتیں اُس میں نظر آتی ہیں۔“ اَوروں نے سوچا، ”یہ الیاس نبی ہے۔“ یہ خیال بھی پیش کیا جا رہا تھا کہ وہ قدیم زمانے کے نبیوں جیسا کوئی نبی ہے۔ لیکن جب ہیرودیس نے اُس کے بارے میں سنا تو اُس نے کہا، ”یحییٰ جس کا مَیں نے سر قلم کروایا ہے مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے۔“ وجہ یہ تھی کہ ہیرودیس کے حکم پر ہی یحییٰ کو گرفتار کر کے جیل میں ڈالا گیا تھا۔ یہ ہیرودیاس کی خاطر ہوا تھا جو پہلے ہیرودیس کے بھائی فلپّس کی بیوی تھی، لیکن جس سے اُس نے اب خود شادی کر لی تھی۔ یحییٰ نے ہیرودیس کو بتایا تھا، ”اپنے بھائی کی بیوی سے تیری شادی ناجائز ہے۔“ اِس وجہ سے ہیرودیاس اُس سے کینہ رکھتی اور اُسے قتل کرانا چاہتی تھی۔ لیکن اِس میں وہ ناکام رہی کیونکہ ہیرودیس یحییٰ سے ڈرتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ آدمی راست باز اور مُقدّس ہے، اِس لئے وہ اُس کی حفاظت کرتا تھا۔ جب بھی اُس سے بات ہوتی تو ہیرودیس سن سن کر بڑی اُلجھن میں پڑ جاتا۔ توبھی وہ اُس کی باتیں سننا پسند کرتا تھا۔ آخرکار ہیرودیاس کو ہیرودیس کی سال گرہ پر اچھا موقع مل گیا۔ سال گرہ کو منانے کے لئے ہیرودیس نے اپنے بڑے سرکاری افسروں، ملٹری کمانڈروں اور گلیل کے اوّل درجے کے شہریوں کی ضیافت کی۔ ضیافت کے دوران ہیرودیاس کی بیٹی اندر آ کر ناچنے لگی۔ ہیرودیس اور اُس کے مہمانوں کو یہ بہت پسند آیا اور اُس نے لڑکی سے کہا، ”جو جی چاہے مجھ سے مانگ تو مَیں وہ تجھے دوں گا۔“ بلکہ اُس نے قَسم کھا کر کہا، ”جو بھی تُو مانگے گی مَیں تجھے دوں گا، خواہ بادشاہی کا آدھا حصہ ہی کیوں نہ ہو۔“ لڑکی نے نکل کر اپنی ماں سے پوچھا، ”مَیں کیا مانگوں؟“ ماں نے جواب دیا، ”یحییٰ بپتسمہ دینے والے کا سر۔“ لڑکی پُھرتی سے اندر جا کر بادشاہ کے پاس واپس آئی اور کہا، ”مَیں چاہتی ہوں کہ آپ مجھے ابھی ابھی یحییٰ بپتسمہ دینے والے کا سر ٹرے میں منگوا دیں۔“ یہ سن کر بادشاہ کو بہت دُکھ ہوا۔ لیکن اپنی قَسموں اور مہمانوں کی موجودگی کی وجہ سے وہ انکار کرنے کے لئے بھی تیار نہیں تھا۔ چنانچہ اُس نے فوراً جلاد کو بھیج کر حکم دیا کہ وہ یحییٰ کا سر لے آئے۔ جلاد نے جیل میں جا کر یحییٰ کا سر قلم کر دیا۔ پھر وہ اُسے ٹرے میں رکھ کر لے آیا اور لڑکی کو دے دیا۔ لڑکی نے اُسے اپنی ماں کے سپرد کیا۔ جب یحییٰ کے شاگردوں کو یہ خبر پہنچی تو وہ آئے اور اُس کی لاش لے کر اُسے قبر میں رکھ دیا۔ رسول واپس آ کر عیسیٰ کے پاس جمع ہوئے اور اُسے سب کچھ سنانے لگے جو اُنہوں نے کیا اور سکھایا تھا۔ اِس دوران اِتنے لوگ آ اور جا رہے تھے کہ اُنہیں کھانا کھانے کا موقع بھی نہ ملا۔ اِس لئے عیسیٰ نے بارہ شاگردوں سے کہا، ”آؤ، ہم لوگوں سے الگ ہو کر کسی غیرآباد جگہ جائیں اور آرام کریں۔“ چنانچہ وہ کشتی پر سوار ہو کر کسی ویران جگہ چلے گئے۔ لیکن بہت سے لوگوں نے اُنہیں جاتے وقت پہچان لیا۔ وہ پیدل چل کر تمام شہروں سے نکل آئے اور دوڑ دوڑ کر اُن سے پہلے منزلِ مقصود تک پہنچ گئے۔ جب عیسیٰ نے کشتی پر سے اُتر کر بڑے ہجوم کو دیکھا تو اُسے لوگوں پر ترس آیا، کیونکہ وہ اُن بھیڑوں کی مانند تھے جن کا کوئی چرواہا نہ ہو۔ وہیں وہ اُنہیں بہت سی باتیں سکھانے لگا۔ جب دن ڈھلنے لگا تو اُس کے شاگرد اُس کے پاس آئے اور کہا، ”یہ جگہ ویران ہے اور دن ڈھلنے لگا ہے۔ اِن کو رُخصت کر دیں تاکہ یہ ارد گرد کی بستیوں اور دیہاتوں میں جا کر کھانے کے لئے کچھ خرید لیں۔“ لیکن عیسیٰ نے اُنہیں کہا، ”تم خود اِنہیں کچھ کھانے کو دو۔“ اُنہوں نے پوچھا، ”ہم اِس کے لئے درکار چاندی کے 200 سِکے کہاں سے لے کر روٹی خریدنے جائیں اور اِنہیں کھلائیں؟“ اُس نے کہا، ”تمہارے پاس کتنی روٹیاں ہیں؟ جا کر پتا کرو!“ اُنہوں نے معلوم کیا۔ پھر دوبارہ اُس کے پاس آ کر کہنے لگے، ”ہمارے پاس پانچ روٹیاں اور دو مچھلیاں ہیں۔“ اِس پر عیسیٰ نے اُنہیں ہدایت دی، ”تمام لوگوں کو گروہوں میں ہری گھاس پر بٹھا دو۔“ چنانچہ لوگ سَو سَو اور پچاس پچاس کی صورت میں بیٹھ گئے۔ پھر عیسیٰ نے اُن پانچ روٹیوں اور دو مچھلیوں کو لے کر آسمان کی طرف دیکھا اور شکرگزاری کی دعا کی۔ پھر اُس نے روٹیوں کو توڑ توڑ کر شاگردوں کو دیا تاکہ وہ لوگوں میں تقسیم کریں۔ اُس نے دو مچھلیوں کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کر کے شاگردوں کے ذریعے اُن میں تقسیم کروایا۔ اور سب نے جی بھر کر کھایا۔ جب شاگردوں نے روٹیوں اور مچھلیوں کے بچے ہوئے ٹکڑے جمع کئے تو بارہ ٹوکرے بھر گئے۔ کھانے والے مردوں کی کُل تعداد 5,000 تھی۔ اِس کے عین بعد عیسیٰ نے اپنے شاگردوں کو مجبور کیا کہ وہ کشتی پر سوار ہو کر آگے نکلیں اور جھیل کے پار کے شہر بیت صیدا جائیں۔ اِتنے میں وہ ہجوم کو رُخصت کرنا چاہتا تھا۔ اُنہیں خیرباد کہنے کے بعد وہ دعا کرنے کے لئے پہاڑ پر چڑھ گیا۔ شام کے وقت شاگردوں کی کشتی جھیل کے بیچ تک پہنچ گئی تھی جبکہ عیسیٰ خود خشکی پر اکیلا رہ گیا تھا۔ وہاں سے اُس نے دیکھا کہ شاگرد کشتی کو کھینے میں بڑی جد و جہد کر رہے ہیں، کیونکہ ہَوا اُن کے خلاف چل رہی تھی۔ تقریباً تین بجے رات کے وقت عیسیٰ پانی پر چلتے ہوئے اُن کے پاس آیا۔ وہ اُن سے آگے نکلنا چاہتا تھا، لیکن جب اُنہوں نے اُسے جھیل کی سطح پر چلتے ہوئے دیکھا تو سوچنے لگے، ”یہ کوئی بھوت ہے“ اور چیخیں مارنے لگے۔ کیونکہ سب نے اُسے دیکھ کر دہشت کھائی۔ لیکن عیسیٰ فوراً اُن سے مخاطب ہو کر بولا، ”حوصلہ رکھو! مَیں ہی ہوں۔ مت گھبراؤ۔“ پھر وہ اُن کے پاس آیا اور کشتی میں بیٹھ گیا۔ اُسی وقت ہَوا تھم گئی۔ شاگرد نہایت ہی حیرت زدہ ہوئے۔ کیونکہ جب روٹیوں کا معجزہ کیا گیا تھا تو وہ اِس کا مطلب نہیں سمجھے تھے بلکہ اُن کے دل بےحس ہو گئے تھے۔ جھیل کو پار کر کے وہ گنیسرت شہر کے پاس پہنچ گئے اور لنگر ڈال دیا۔ جوں ہی وہ کشتی سے اُترے لوگوں نے عیسیٰ کو پہچان لیا۔ وہ بھاگ بھاگ کر اُس پورے علاقے میں سے گزرے اور مریضوں کو چارپائیوں پر اُٹھا اُٹھا کر وہاں لے آئے جہاں کہیں اُنہیں خبر ملی کہ وہ ٹھہرا ہوا ہے۔ جہاں بھی وہ گیا چاہے گاؤں، شہر یا بستی میں، وہاں لوگوں نے بیماروں کو چوکوں میں رکھ کر اُس سے منت کی کہ وہ کم از کم اُنہیں اپنے لباس کے دامن کو چھونے دے۔ اور جس نے بھی اُسے چھوا اُسے شفا ملی۔