لُوقا 1:13-21

لُوقا 1:13-21 UCV

اُس وقت بعض لوگ وہاں شریک تھے جو یِسوعؔ کو اُن گلِیلیوں کے بارے میں بتانے لگے جِن کے خُون کو پِیلاطُسؔ نے اُن کی قُربانی کے ساتھ میں مِلایا تھا۔ یِسوعؔ نے اُنہیں جَواب دیا، ”کیا تُم یہ سمجھتے ہو کہ اِن گلِیلیوں کا اَیسا بُرا اَنجام اِس لیٔے ہُوا کہ وہ باقی سارے گلِیلیوں سے زِیادہ گُنہگار تھے؟ اِس لیٔے اُن کے ساتھ اَیسا ہُوا میں تُم سے کہتا ہُوں، کہ نہیں! بَلکہ اگر تُم بھی تَوبہ نہ کروگے تو سَب کے سَب اِسی طرح ہلاک جاؤگے۔ یا کیا وہ اٹھّارہ جِن پر سِلومؔ کا بُرج گرا اَور وہ دَب کر مَر گیٔے یروشلیمؔ کے باقی باشِندوں سے زِیادہ قُصُوروار تھے؟ میں تُم سے کہتا ہُوں کہ نہیں! بَلکہ اگر تُم تَوبہ نہ کروگے تو تُم سَب بھی اِسی طرح ہلاک ہوگے۔“ اِس کے بعد یِسوعؔ نے اُنہیں یہ تمثیل سُنایٔی: ”کسی آدمی نے اَپنے انگوری باغ میں اَنجیر کا درخت لگا رکھا تھا، وہ اُس میں پھل ڈھونڈنے آیا مگر ایک بھی پھل نہ پایا۔ تَب اُس نے باغبان سے کہا، دیکھ، ’میں پچھلے تین بَرس سے اِس اَنجیر کے درخت میں پھل ڈھونڈنے آتا رہا ہُوں اَور کُچھ نہیں پاتا ہُوں۔ اِسے کاٹ ڈال! یہ کیوں جگہ گھیرے ہُوئے ہے؟‘ ”لیکن باغبان نے جَواب میں اُس سے کہا، ’مالک،‘ اِسے اِس سال اَور باقی رہنے دے، ’میں اِس کے اِردگرد کھُدائی کرکے کھاد ڈالُوں گا۔ اگر یہ اگلے سال پھل لایا تو خیر ہے ورنہ اِسے کٹوا ڈالنا۔‘ “ ایک سَبت کے دِن یِسوعؔ کسی یہُودی عبادت گاہ میں تعلیم دے رہے تھے۔ وہاں ایک عورت تھی جسے اٹھّارہ بَرس سے ایک بدرُوح نے اِس قدر مفلُوج کر دیا تھا کہ وہ کُبڑی ہو گئی تھی اَور کسی طرح سیدھی نہ ہو سکتی تھی۔ جَب یِسوعؔ نے اُسے دیکھا تو اُسے سامنے بُلایا اَور کہا، ”اَے خاتُون، تُو اَپنی کمزوری سے آزاد ہو گئی۔“ تَب یِسوعؔ نے اُس پر اَپنا ہاتھ رکھا اَور وہ فوراً سیدھی ہو گئی اَور خُدا کی تمجید کرنے لگی۔ لیکن یہُودی عبادت گاہ کا رہنما خفا ہو گیا کیونکہ، یِسوعؔ نے سَبت کے دِن اُسے شفا دی تھی، اَور لوگوں سے کہنے لگاکہ، ”کام کرنے کے لیٔے چھ دِن ہیں اِس لیٔے اُن ہی دِنوں میں شفا پانے کے لیٔے آیا کرو نہ کہ سَبت کے دِن۔“ خُداوؔند نے اُسے جَواب دیا، ”اَے ریاکاروں! کیا تُم میں سے ہر ایک سَبت کے دِن اَپنے بَیل یا گدھے کو تھان سے کھول کر پانی پِلانے کے لیٔے نہیں لے جاتا؟ تو کیا یہ مُناسب نہ تھا کہ یہ عورت جو اَبراہامؔ کی بیٹی ہے جسے شیطان نے اٹھّارہ بَرس سے باندھ کر رکھا ہے، سَبت کے دِن اِس قَید سے چھُڑائی جاتی؟“ جَب یِسوعؔ نے یہ باتیں کہیں تو اُن کے سَب مُخالف شرمندہ ہو گئے لیکن سَب لوگ یِسوعؔ کے ہاتھوں سے ہونے والے حیرت اَنگیز کاموں کو دیکھ کر خُوش تھے۔ تَب یِسوعؔ نے اُن سے پُوچھا، ”خُدا کی بادشاہی کس چیز کے مانِند ہے اَور مَیں اِسے کس چیز سے تشبیہ دُوں؟ وہ رائی کے دانے کی مانِند ہے جسے ایک شخص نے لے کر اَپنے باغ میں بو دیا۔ وہ اُگ کر اِتنا بڑا پَودا ہو گیا، کہ ہَوا کے پرندے اُس کی ڈالیوں پر بسیرا کرنے لگے۔“ یِسوعؔ نے پھر سے پُوچھا، ”میں خُدا کی بادشاہی کو کس سے تشبیہ دُوں؟ وہ خمیر کی مانِند ہے جسے ایک خاتُون نے لے کر 27 کِلو آٹے میں مِلا دیا اَور یہاں تک کہ سارا آٹا خمیر ہو گیا۔“