لُوقا 9
9
یِسُوع بارہ شاگِردوں کو بھیجتا ہے
(متّی ۱۰:۵-۱۵؛ مرقس ۶:۷-۱۳)
1پِھر اُس نے اُن بارہ کو بُلا کر اُنہیں سب بدرُوحوں پر اِختیار بخشا اور بِیماریوں کو دُور کرنے کی قُدرت دی۔ 2اور اُنہیں خُدا کی بادشاہی کی مُنادی کرنے اور بِیماروں کو اچھّا کرنے کے لِئے بھیجا۔ 3اور اُن سے کہا کہ راہ کے لِئے کُچھ نہ لینا۔ نہ لاٹھی۔ نہ جھولی۔ نہ روٹی۔ نہ رُوپیہ۔ نہ دو دو کُرتے رکھنا۔ 4اور جِس گھر میں داخِل ہو وہِیں رہنا اور وہِیں سے روانہ ہونا۔ 5اور جِس شہر کے لوگ تُمہیں قبُول نہ کریں۔ اُس شہر سے نِکلتے وقت اپنے پاؤں کی گَرد جھاڑ دینا تاکہ اُن پر گواہی ہو۔
6پس وہ روانہ ہو کر گاؤں گاؤں خُوشخبری سُناتے اور ہر جگہ شِفا دیتے پِھرے۔
ہیرودؔیس کی گھبراہٹ
(متّی ۱۴:۱-۱۲؛ مرقس ۶:۱۴-۲۹)
7اور چَوتھائی مُلک کا حاکِم ہیرودؔیس سب اَحوال سُن کر گھبرا گیا۔ اِس لِئے کہ بعض کہتے تھے کہ یُوحنّا مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے۔ 8اور بعض یہ کہ ایلیّاؔہ ظاہِر ہُؤا ہے اور بعض یہ کہ قدِیم نبِیوں میں سے کوئی جی اُٹھا ہے۔ 9مگر ہیرودؔیس نے کہا کہ یُوحنّا کا تو مَیں نے سر کٹوا دِیا۔ اب یہ کون ہے جِس کی بابت اَیسی باتیں سُنتا ہُوں؟ پس اُسے دیکھنے کی کوشِش میں رہا۔
یِسُوع پانچ ہزار کو کھانا کھلاتا ہے
(متّی ۱۴:۱۳-۲۱؛ مرقس ۶:۳۰-۴۴؛ یُوحنّا ۶:۱-۱۰)
10پِھر رسُولوں نے جو کُچھ کِیا تھا لَوٹ کر اُس سے بیان کِیا اور وہ اُن کو الگ لے کر بَیت صَیدا نام ایک شہر کو چلا گیا۔ 11یہ جان کر بِھیڑ اُس کے پِیچھے گئی اور وہ خُوشی کے ساتھ اُن سے مِلا اور اُن سے خُدا کی بادشاہی کی باتیں کرنے لگا اور جو شِفا پانے کے مُحتاج تھے اُنہیں شِفا بخشی۔
12جب دِن ڈھلنے لگا تو اُن بارہ نے آ کر اُس سے کہا کہ بِھیڑ کو رُخصت کر کہ چاروں طرف کے گاؤں اور بستیوں میں جا ٹِکیں اور کھانے کی تدبِیر کریں کیونکہ ہم یہاں وِیران جگہ میں ہیں۔
13اُس نے اُن سے کہا تُم ہی اُنہیں کھانے کو دو۔
اُنہوں نے کہا ہمارے پاس صرف پانچ روٹِیاں اور دو مچھلِیاں ہیں مگر ہاں ہم جا کر اِن سب لوگوں کے لِئے کھانا مول لے آئیں۔ 14کیونکہ وہ پانچ ہزار مَرد کے قرِیب تھے۔
اُس نے اپنے شاگِردوں سے کہا کہ اُن کو تخمِیناً پچاس پچاس کی قِطاروں میں بِٹھاؤ۔
15اُنہوں نے اُسی طرح کِیا اور سب کو بِٹھایا۔ 16پِھر اُس نے وہ پانچ روٹِیاں اور دو مچھلِیاں لِیں اور آسمان کی طرف دیکھ کر اُن پر برکت بخشی اور توڑ کر اپنے شاگِردوں کو دیتا گیا کہ لوگوں کے آگے رکھّیں۔ 17اُنہوں نے کھایا اور سب سیر ہو گئے اور اُن کے بچے ہُوئے ٹُکڑوں کی بارہ ٹوکرِیاں اُٹھائی گئِیں۔
یِسُوع کے حق میں پطرس کا اعلان
(متّی ۱۶:۱۳-۱۹؛ مرقس ۸:۲۷-۲۹)
18جب وہ تنہائی میں دُعا کر رہا تھا اور شاگِرد اُس کے پاس تھے تو اَیسا ہُؤا کہ اُس نے اُن سے پُوچھا کہ لوگ مُجھے کیا کہتے ہیں؟
19اُنہوں نے جواب میں کہا یُوحنّا بپتِسمہ دینے والا اور بعض ایلیّاؔہ کہتے ہیں اور بعض یہ کہ قدِیم نبِیوں میں سے کوئی جی اُٹھا ہے۔
20اُس نے اُن سے کہا لیکن تُم مُجھے کیا کہتے ہو؟
پطرؔس نے جواب میں کہا کہ خُدا کا مسِیح۔
یِسُوع اپنے دُکھ اُٹھانے اور مَوت کا ذکر کرتا ہے
(متّی ۱۶:۲۰-۲۸؛ مرقس ۸:۳۰—۹:۱)
21اُس نے اُن کو تاکِید کر کے حُکم دِیا کہ یہ کِسی سے نہ کہنا۔ 22اور کہا ضرُور ہے کہ اِبنِ آدمؔ بُہت دُکھ اُٹھائے اور بزُرگ اور سردار کاہِن اور فقِیہہ اُسے ردّ کریں اور وہ قتل کِیا جائے اور تِیسرے دِن جی اُٹھے۔
23اور اُس نے سب سے کہا اگر کوئی میرے پِیچھے آنا چاہے تو اپنی خُودی سے اِنکار کرے اور ہر روز اپنی صلِیب اُٹھائے اور میرے پِیچھے ہو لے۔ 24کیونکہ جو کوئی اپنی جان بچانا چاہے وہ اُسے کھوئے گا اور جو کوئی میری خاطِر اپنی جان کھوئے وُہی اُسے بچائے گا۔ 25اور آدمی اگر ساری دُنیا کو حاصِل کرے اور اپنی جان کو کھو دے یا اُس کا نُقصان اُٹھائے تو اُسے کیا فائِدہ ہو گا؟ 26کیونکہ جو کوئی مُجھ سے اور میری باتوں سے شرمائے گا اِبنِ آدمؔ بھی جب اپنے اور اپنے باپ کے اور پاک فرِشتوں کے جلال میں آئے گا تو اُس سے شرمائے گا۔ 27لیکن مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ اُن میں سے جو یہاں کھڑے ہیں بعض اَیسے ہیں کہ جب تک خُدا کی بادشاہی کو دیکھ نہ لیں مَوت کا مزہ ہرگِز نہ چکّھیں گے۔
یِسُوع کی صُورت کا بدل جانا
(متّی ۱۷:۱-۸؛ مرقس ۹:۲-۸)
28پِھر اِن باتوں کے کوئی آٹھ روز بعد اَیسا ہُؤا کہ وہ پطرؔس اور یُوحنّا اور یعقُوبؔ کو ہمراہ لے کر پہاڑ پر دُعا کرنے گیا۔ 29جب وہ دُعا کر رہا تھا تو اَیسا ہُؤا کہ اُس کے چِہرہ کی صُورت بدل گئی اور اُس کی پوشاک سفید برّاق ہو گئی۔ 30اور دیکھو دو شخص یعنی مُوسیٰ اور ایلیّاؔہ اُس سے باتیں کر رہے تھے۔ 31یہ جلال میں دِکھائی دِئے اور اُس کے اِنتقال کا ذِکر کرتے تھے جو یروشلِیم میں واقِع ہونے کو تھا۔ 32مگر پطرؔس اور اُس کے ساتھی نِیند میں پڑے تھے اور جب اچھّی طرح بیدار ہُوئے تو اُس کے جلال کو اور اُن دو شخصوں کو دیکھا جو اُس کے ساتھ کھڑے تھے۔ 33جب وہ اُس سے جُدا ہونے لگے تو اَیسا ہُؤا کہ پطرؔس نے یِسُوعؔ سے کہا اَے اُستاد ہمارا یہاں رہنا اچھّا ہے۔ پس ہم تِین ڈیرے بنائیں۔ ایک تیرے لِئے۔ ایک مُوسیٰ کے لِئے ایک ایلیّاؔہ کے لِئے۔ لیکن وہ جانتا نہ تھا کہ کیا کہتا ہے۔
34وہ یہ کہتا ہی تھا کہ بادل نے آ کر اُن پر سایہ کر لِیا اور جب وہ بادل میں گِھرنے لگے تو ڈر گئے۔ 35اور بادل میں سے ایک آواز آئی کہ یہ میرا برگُزِیدہ بیٹا ہے۔ اِس کی سُنو۔
36یہ آواز آتے ہی یِسُوعؔ اکیلا دکھائی دیا اور وہ چُپ رہے اور جو باتیں دیکھی تِھیں اُن دِنوں میں کِسی کو اُن کی کُچھ خبر نہ دی۔
یِسُوع ایک بدرُوح گِرفتہ لڑکے کو شِفا دیتا ہے
(متّی ۱۷:۱۴-۱۸؛ مرقس ۹:۱۴-۲۷)
37دُوسرے دِن جب وہ پہاڑ سے اُترے تھے تو اَیسا ہُؤا کہ ایک بڑی بِھیڑ اُس سے آ مِلی۔ 38اور دیکھو ایک آدمی نے بِھیڑ میں سے چِلاّ کر کہا اَے اُستاد! مَیں تیری مِنّت کرتا ہُوں کہ میرے بیٹے پر نظر کر کیونکہ وہ میرا اِکلَوتا ہے۔ 39اور دیکھو ایک رُوح اُسے پکڑ لیتی ہے اور وہ یکایک چِیخ اُٹھتا ہے اور اُس کو اَیسا مروڑتی ہے کہ کف بھر لاتا ہے اور اُس کو کُچل کر مُشکِل سے چھوڑتی ہے۔ 40اور مَیں نے تیرے شاگِردوں کی مِنّت کی کہ اُسے نِکال دیں لیکن وہ نہ نِکال سکے۔
41یِسُوعؔ نے جواب میں کہا اَے بے اِعتقاد اور کَجرو قَوم میں کب تک تُمہارے ساتھ رہُوں گا اور تُمہاری برداشت کرُوں گا؟ اپنے بیٹے کو یہاں لے آ۔
42وہ آتا ہی تھا کہ بدرُوح نے اُسے پٹک کر مروڑا اور یِسُوعؔ نے اُس ناپاک رُوح کو جِھڑکا اور لڑکے کو اچھّا کر کے اُس کے باپ کو دے دِیا۔ 43اور سب لوگ خُدا کی شان کو دیکھ کر حَیران ہُوئے۔
یِسُوع دُوبارہ اپنے دُکھ اُٹھانے اور مَوت کا ذکر کرتا ہے
(متّی ۱۷:۲۲-۲۳؛ مرقس ۹:۳۰-۳۲)
لیکن جِس وقت سب لوگ اُن سب کاموں پر جو وہ کرتا تھا تعجُّب کر رہے تھے اُس نے اپنے شاگِردوں سے کہا۔
44تُمہارے کانوں میں یہ باتیں پڑی رہیں کیونکہ اِبنِ آدمؔ آدمِیوں کے ہاتھ میں حوالہ کِئے جانے کو ہے۔
45لیکن وہ اِس بات کو سمجھتے نہ تھے بلکہ یہ اُن سے چِھپائی گئی تاکہ اُسے معلُوم نہ کریں اور اِس بات کی بابت اُس سے پُوچھتے ہُوئے ڈرتے تھے۔
سب سے بڑا کون ہے؟
(متّی ۱۸:۱-۵؛ مرقس ۹:۳۳-۳۷)
46پِھر اُن میں یہ بحث شرُوع ہُوئی کہ ہم میں سے بڑا کَون ہے؟ 47لیکن یِسُوعؔ نے اُن کے دِلوں کا خیال معلُوم کر کے ایک بچّہ کو لِیا اور اپنے پاس کھڑا کر کے اُن سے کہا۔ 48جو کوئی اِس بچّہ کو میرے نام پر قبُول کرتا ہے وہ مُجھے قبُول کرتا ہے اور جو مُجھے قبُول کرتا ہے وہ میرے بھیجنے والے کو قبُول کرتا ہے کیونکہ جو تُم میں سب سے چھوٹا ہے وُہی بڑا ہے۔
جو تُمہارا مُخالف نہیں وہ تُمہارا حامی ہے
(مرقس ۹:۳۸-۴۰)
49یُوحنّا نے جواب میں کہا اَے اُستاد ہم نے ایک شخص کو تیرے نام سے بدرُوحیں نِکالتے دیکھا اور اُس کو منع کرنے لگے کیونکہ وہ ہمارے ساتھ تیری پَیروی نہیں کرتا۔
50لیکن یِسُوعؔ نے اُس سے کہا کہ اُسے منع نہ کرنا کیونکہ جو تُمہارے خِلاف نہیں وہ تُمہاری طرف ہے۔
ایک سامری گاؤں یِسُوع کو قبُول کرنے سے اِنکار کرتا ہے
51جب وہ دِن نزدِیک آئے کہ وہ اُوپر اُٹھایا جائے تو اَیسا ہُؤا کہ اُس نے یروشلِیم جانے کو کمر باندھی۔ 52اور اپنے آگے قاصِد بھیجے۔ وہ جا کر سامرِیوں کے ایک گاؤں میں داخِل ہُوئے تاکہ اُس کے لِئے تیّاری کریں۔ 53لیکن اُنہوں نے اُس کو ٹِکنے نہ دِیا کیونکہ اُس کا رُخ یروشلِیم کی طرف تھا۔ 54یہ دیکھ کر اُس کے شاگِرد یعقُوبؔ اور یُوحنّا نے کہا اَے خُداوند کیا تُو چاہتا ہے کہ ہم حُکم دیں کہ آسمان سے آگ نازِل ہو کر اُنہیں بھسم کر دے [جَیسا ایلیّاؔہ نے کِیا]؟
55مگر اُس نے پِھر کر اُنہیں جِھڑکا [اور کہا تُم نہیں جانتے کہ تُم کَیسی رُوح کے ہو۔ 56کیونکہ اِبنِ آدمؔ لوگوں کی جان برباد کرنے نہیں بلکہ بچانے آیا] پِھر وہ کِسی اَور گاؤں میں چلے گئے۔
یِسُوع کے پَیروکار بننے کے آرزُو مند افراد
(متّی ۸:۱۹-۲۳)
57جب وہ راہ میں چلے جاتے تھے تو کِسی نے اُس سے کہا جہاں کہِیں تُو جائے مَیں تیرے پِیچھے چلُوں گا۔
58یِسُوعؔ نے اُس سے کہا کہ لومڑِیوں کے بھٹ ہوتے ہیں اور ہوا کے پرِندوں کے گھونسلے مگر اِبنِ آدمؔ کے لِئے سر دھرنے کی بھی جگہ نہیں۔
59پِھر اُس نے دُوسرے سے کہا میرے پِیچھے چل۔
اُس نے کہا اَے خُداوند! مُجھے اِجازت دے کہ پہلے جا کر اپنے باپ کو دفن کرُوں۔
60اُس نے اُس سے کہا کہ مُردوں کو اپنے مُردے دفن کرنے دے لیکن تُو جا کر خُدا کی بادشاہی کی خبر پَھیلا۔
61ایک اَور نے بھی کہا اَے خُداوند مَیں تیرے پِیچھے چلُوں گا لیکن پہلے مُجھے اِجازت دے کہ اپنے گھر کے لوگوں سے رُخصت ہو آؤں۔
62یِسُوعؔ نے اُس سے کہا جو کوئی اپنا ہاتھ ہَل پر رکھ کر پِیچھے دیکھتا ہے وہ خُدا کی بادشاہی کے لائِق نہیں۔
موجودہ انتخاب:
لُوقا 9: URD
سرخی
شئیر
کاپی
کیا آپ جاہتے ہیں کہ آپ کی سرکیاں آپ کی devices پر محفوظ ہوں؟ Sign up or sign in
Revised Urdu Holy Bible © Pakistan Bible Society, 1970, 2010.