YouVersion Logo
تلاش

پَیدائش 41

41
یُوسفؔ بادشاہ کے خواب کی تعبِیر کرتا ہے
1پُورے دو برس کے بعد فرِعونؔ نے خواب میں دیکھا کہ وہ لبِ دریا کھڑا ہے۔ 2اور اُس دریا میں سے سات خُوب صُورت اور موٹی موٹی گائیں نِکل کر نَیستان میں چرنے لگیں۔ 3اُن کے بعد اَور سات بدشکل اور دُبلی دُبلی گائیں دریا سے نِکلِیں اور دُوسری گایوں کے برابر دریا کے کنارے جا کھڑی ہُوئِیں۔ 4اور یہ بدشکل اور دُبلی دُبلی گائیں اُن ساتوں خُوب صُورت اور موٹی موٹی گایوں کو کھا گئِیں۔ تب فرِعونؔ جاگ اُٹھا۔ 5اور وہ پِھر سو گیا اور اُس نے دُوسرا خواب دیکھا کہ ایک ڈنٹھی میں اناج کی سات موٹی اور اچھّی اچھّی بالیں نِکلِیں۔ 6اُن کے بعد اَور سات پتلی اور پُوربی ہوا کی ماری مُرجھائی ہُوئی بالیں نِکلِیں۔ 7یہ پتلی بالیں اُن ساتوں موٹی اور بھری ہُوئی بالوں کو نِگل گئِیں اور فرِعونؔ جاگ گیا اور اُسے معلُوم ہُؤا کہ یہ خواب تھا۔ 8اور صُبح کو یُوں ہُؤا کہ اُس کا جی گھبرایا۔ تب اُس نے مِصرؔ کے سب جادُوگروں اور سب دانِش مندوں کو بُلوا بھیجا اور اپنا خواب اُن کو بتایا پر اُن میں سے کوئی فرِعونؔ کے آگے اُن کی تعبِیر نہ کر سکا۔
9اُس وقت سردار ساقی نے فرِعونؔ سے کہا کہ میری خطائیں آج مُجھے یاد آئِیں۔ 10جب فرِعونؔ اپنے خادِموں سے ناراض تھا اور اُس نے مُجھے اور سردار نان پَز کو جلَوداروں کے سردار کے گھر میں نظربند کروا دِیا۔ 11تو مَیں نے اور اُس نے ایک ہی رات میں ایک ایک خواب دیکھا۔ یہ خواب ہم نے اپنے اپنے ہونہار کے مُطابِق دیکھے۔ 12وہاں ایک عِبری جوان جلَوداروں کے سردار کا نوکر ہمارے ساتھ تھا۔ ہم نے اُسے اپنے خواب بتائے اور اُس نے اُن کی تعبِیر کی اور ہم میں سے ہر ایک کو ہمارے خواب کے مُطابِق اُس نے تعِبیر بتائی۔ 13اور جو تعبِیر اُس نے بتائی تھی وَیسا ہی ہُؤا کیونکہ مُجھے تو اُس نے میرے منصب پر بحال کِیا تھا اور اُسے پھانسی دی تھی۔
14تب فرِعونؔ نے یُوسفؔ کو بُلوا بھیجا۔ سو اُنہوں نے جلد اُسے قَید خانہ سے باہر نِکالا اور اُس نے حجامت بنوائی اور کپڑے بدل کر فرِعونؔ کے سامنے آیا۔ 15فرِعونؔ نے یُوسفؔ سے کہا مَیں نے ایک خواب دیکھا ہے جِس کی تعبیر کوئی نہیں کر سکتا اور مُجھ سے تیرے بارے میں کہتے ہیں کہ تُو خواب کو سُن کر اُس کی تعبیر کرتا ہے۔
16یُوسفؔ نے فرِعونؔ کو جواب دِیا مَیں کُچھ نہیں جانتا۔ خُدا ہی فرِعونؔ کو سلامتی بخش جواب دے گا۔
17تب فرِعونؔ نے یُوسفؔ سے کہا مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مَیں دریا کے کنارے کھڑا ہُوں۔ 18اور اُس دریا میں سے سات موٹی اور خُوب صُورت گائیں نِکل کر نَیستان میں چرنے لگیں۔ 19اُن کے بعد اَور سات خراب اور نِہایت بدشکل اور دُبلی گائیں نِکلِیں اور وہ اِس قدر بُری تِھیں کہ مَیں نے سارے مُلکِ مِصرؔ میں اَیسی کبھی نہیں دیکھِیں۔ 20اور وہ دُبلی اور بدشکل گائیں اُن پہلی ساتوں موٹی گایوں کو کھا گئِیں۔ 21اور اُن کے کھا جانے کے بعد یہ معلُوم بھی نہیں ہوتا تھا کہ اُنہوں نے اُن کو کھا لِیا ہے بلکہ وہ پہلے کی طرح جَیسی کی تَیسی بدشکل رہِیں۔ تب مَیں جاگ گیا۔ 22اور پِھر خواب میں دیکھا کہ ایک ڈنٹھی میں سات بھری اور اچھّی اچھّی بالیں نِکلِیں۔ 23اور اُن کے بعد اَور سات سُوکھی اور پتلی اور پُوربی ہوا کی ماری مُرجھائی ہُوئی بالیں نِکلِیں۔ 24اور یہ پتلی بالیں اُن ساتوں اچھّی اچھّی بالوں کو نِگل گئِیں اور مَیں نے اِن جادُوگروں سے اِس کا بیان کِیا پر ایسا کوئی نہ نِکلا جو مُجھے اِس کا مطلب بتاتا۔
25تب یُوسفؔ نے فرِعونؔ سے کہا کہ فرِعونؔ کا خواب ایک ہی ہے۔ جو کُچھ خُدا کرنے کو ہے اُسے اُس نے فرِعونؔ پر ظاہِر کِیا ہے۔ 26وہ سات اچھّی اچھّی گائیں سات برس ہیں اور وہ سات اچھّی اچھّی بالیں بھی سات برس ہیں۔ خواب ایک ہی ہے۔ 27اور وہ سات بدشکل اور دُبلی گائیں جو اُن کے بعد نِکلِیں اور وہ سات خالی اور پُوربی ہوا کی ماری مُرجھائی ہُوئی بالیں بھی سات برس ہی ہیں مگر کال کے سات برس۔ 28یہ وُہی بات ہے جو مَیں فرِعونؔ سے کہہ چُکا ہُوں کہ جو کُچھ خُدا کرنے کو ہے اُسے اُس نے فرِعونؔ پر ظاہِر کِیا ہے۔ 29دیکھ! سارے مُلکِ مِصرؔ میں سات برس تو پَیداوار کثِیر کے ہوں گے۔ 30اُن کے بعد سات برس کال کے آئیں گے اور تمام مُلکِ مصؔر میں لوگ اِس ساری پَیداوار کو بُھول جائیں گے اور یہ کال مُلک کو تباہ کر دے گا۔ 31اور ارزانی مُلک میں یاد بھی نہیں رہے گی کیونکہ جو کال بعد میں پڑے گا وہ نِہایت ہی سخت ہو گا۔ 32اور فرِعونؔ نے جو یہ خواب دو دفعہ دیکھا تو اِس کا سبب یہ ہے کہ یہ بات خُدا کی طرف سے مُقرّر ہو چُکی ہے اور خُدا اِسے جلد پُورا کرے گا۔
33اِس لِئے فرِعونؔ کو چاہئے کہ ایک دانِشور اور عقل مند آدمی کو تلاش کر لے اور اُسے مُلکِ مِصرؔ پر مُختار بنائے۔ 34فرِعونؔ یہ کرے تاکہ اُس آدمی کو اِختیار ہو کہ وہ مُلک میں ناظِروں کو مُقّرر کر دے اور ارزانی کے سات برسوں میں سارے مُلکِ مِصرؔ کی پَیداوار کا پانچواں حِصّہ لے لے۔ 35اور وہ اُن اچھّے برسوں میں جو آتے ہیں سب کھانے کی چِیزیں جمع کریں اور شہر شہر میں غلّہ جو فرِعونؔ کے اِختیار میں ہو خُورِش کے لِئے فراہم کر کے اُس کی حِفاظت کریں۔ 36یِہی غلّہ مُلک کے لِئے ذخِیرہ ہو گا اور ساتوں برس کے لِئے جب تک مُلک میں کال رہے گا کافی ہو گا تاکہ کال کی وجہ سے مُلک برباد نہ ہو جائے۔
یُوسفؔ مِصرؔ کا حاکِم بنایا جاتا ہے
37یہ بات فرِعونؔ اور اُس کے سب خادِموں کو پسند آئی۔ 38سو فرِعونؔ نے اپنے خادِموں سے کہا کہ کیا ہم کو اَیسا آدمی جَیسا یہ ہے جِس میں خُدا کی رُوح ہے مِل سکتا ہے؟ 39اور فرِعونؔ نے یُوسفؔ سے کہا چُونکہ خُدا نے تُجھے یہ سب کُچھ سمجھا دِیا ہے اِس لِئے تیری مانِند دانشور اور عقل مند کوئی نہیں۔ 40سو تُو میرے گھر کا مُختار ہو گا اور میری ساری رعایا تیرے حُکم پر چلے گی۔ فقط تخت کا مالِک ہونے کے سبب سے مَیں بزُرگ تر ہُوں گا۔ 41اور فرِعونؔ نے یُوسفؔ سے کہا کہ دیکھ مَیں تُجھے سارے مُلکِ مِصرؔ کا حاکِم بناتا ہُوں۔ 42اور فرِعونؔ نے اپنی انگُشتری اپنے ہاتھ سے نِکال کر یُوسفؔ کے ہاتھ میں پہنا دی اور اُسے بارِیک کتان کے لِباس میں آراستہ کروا کر سونے کا طَوق اُس کے گلے میں پہنایا۔ 43اور اُس نے اُسے اپنے دُوسرے رتھ میں سوار کرا کر اُس کے آگے آگے یہ مُنادی کروا دی کہ گُھٹنے ٹیکو اور اُس نے اُسے سارے مُلکِ مِصرؔ کا حاکِم بنا دِیا۔ 44اور فرِعونؔ نے یُوسفؔ سے کہا مَیں فرِعونؔ ہُوں اور تیرے حُکم کے بغیر کوئی آدمی اِس سارے مُلکِ مِصرؔ میں اپنا ہاتھ یا پاؤں ہِلانے نہ پائے گا۔ 45اور فرِعونؔ نے یُوسفؔ کا نام صِفناؔت فعنیح رکھّا اور اُس نے اون کے پُجاری فوطِؔفیرع کی بیٹی آسِناتھؔ کو اُس سے بیاہ دِیا اور یُوسفؔ مُلکِ مِصرؔ میں دَورہ کرنے لگا۔
46اور یُوسفؔ تِیس برس کا تھا جب وہ مِصرؔ کے بادشاہ فرِعونؔ کے سامنے گیا اور اُس نے فرِعونؔ کے پاس سے رُخصت ہو کر سارے مُلکِ مِصرؔ کا دَورہ کِیا۔ 47اور ارزانی کے سات برسوں میں اِفراط سے فصل ہُوئی۔ 48اور وہ لگاتار ساتوں برس ہر قِسم کی خُورِش جو مُلکِ مِصؔر میں پَیدا ہوتی تھی جمع کر کر کے شہروں میں اُس کا ذخیرہ کرتا گیا۔ ہر شہر کی چاروں اطراف کی خورِش وہ اُسی شہر میں رکھتا گیا۔ 49اور یُوسفؔ نے غلّہ سمُندر کی ریت کی مانِند نِہایت کثرت سے ذخیرہ کِیا یہاں تک کہ حِساب رکھنا بھی چھوڑ دِیا کیونکہ وہ بے حِساب تھا۔
50اور کال سے پہلے اون کے پُجاری فوطِیفرعؔ کی بیٹی آسِناتھؔ کے یُوسفؔ سے دو بیٹے پَیدا ہُوئے۔ 51اور یُوسفؔ نے پہلوٹھے کا نام منسّیؔ یہ کہہ کر رکھّا کہ خُدا نے میری اور میرے باپ کے گھر کی سب مشقّت مُجھ سے بُھلا دی۔ 52اور دُوسرے کا نام اِفرائِیمؔ یہ کہہ کر رکھّا کہ خُدا نے مُجھے میری مُصِیبت کے مُلک میں پَھل دار کِیا۔
53اور ارزانی کے وہ سات برس جو مُلکِ مِصؔر میں ہُوئے تمام ہو گئے اور یُوسفؔ کے کہنے کے مُطابِق کال کے سات برس شرُوع ہُوئے۔ 54اور اَور سب مُلکوں میں تو کال تھا پر مُلکِ مصِؔر میں ہر جگہ خُورِش مَوجُود تھی۔ 55اور جب مُلکِ مصِؔر میں لوگ بُھوکوں مَرنے لگے تو روٹی کے لِئے فرِعونؔ کے آگے چِلّائے۔ فرِعونؔ نے مِصریوں سے کہا کہ یُوسفؔ کے پاس جاؤ۔ جو کُچھ وہ تُم سے کہے سو کرو۔ 56اور تمام رُویِ زمِین پر کال تھا اور یُوسفؔ اناج کے کھتّوں کو کُھلوا کر مِصریوں کے ہاتھ بیچنے لگا اور مُلکِ مصِؔر میں سخت کال ہو گیا۔ 57اور سب مُلکوں کے لوگ اناج مول لینے کے لِئے یُوسفؔ کے پاس مِصرؔ میں آنے لگے کیونکہ ساری زمِین پر سخت کال پڑا تھا۔

موجودہ انتخاب:

پَیدائش 41: URD

سرخی

شئیر

کاپی

None

کیا آپ جاہتے ہیں کہ آپ کی سرکیاں آپ کی devices پر محفوظ ہوں؟ Sign up or sign in