۱-کُرِنتِھیوں 1:15-34

۱-کُرِنتِھیوں 1:15-34 URDGVU

بھائیو، مَیں آپ کی توجہ اُس خوش خبری کی طرف دلاتا ہوں جو مَیں نے آپ کو سنائی، وہی خوش خبری جسے آپ نے قبول کیا اور جس پر آپ قائم بھی ہیں۔ اِسی پیغام کے وسیلے سے آپ کو نجات ملتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ آپ وہ باتیں جوں کی توں تھامے رکھیں جس طرح مَیں نے آپ تک پہنچائی ہیں۔ بےشک یہ بات اِس پر منحصر ہے کہ آپ کا ایمان لانا بےمقصد نہیں تھا۔ کیونکہ مَیں نے اِس پر خاص زور دیا کہ وہی کچھ آپ کے سپرد کروں جو مجھے بھی ملا ہے۔ یہ کہ مسیح نے پاک نوشتوں کے مطابق ہمارے گناہوں کی خاطر اپنی جان دی، پھر وہ دفن ہوا اور تیسرے دن پاک نوشتوں کے مطابق جی اُٹھا۔ وہ پطرس کو دکھائی دیا، پھر بارہ شاگردوں کو۔ اِس کے بعد وہ ایک ہی وقت پانچ سَو سے زیادہ بھائیوں پر ظاہر ہوا۔ اُن میں سے بیشتر اب تک زندہ ہیں اگرچہ چند ایک انتقال کر چکے ہیں۔ پھر یعقوب نے اُسے دیکھا، پھر تمام رسولوں نے۔ اور سب کے بعد وہ مجھ پر بھی ظاہر ہوا، مجھ پر جو گویا قبل از وقت پیدا ہوا۔ کیونکہ رسولوں میں میرا درجہ سب سے چھوٹا ہے، بلکہ مَیں تو رسول کہلانے کے بھی لائق نہیں، اِس لئے کہ مَیں نے اللہ کی جماعت کو ایذا پہنچائی۔ لیکن مَیں جو کچھ ہوں اللہ کے فضل ہی سے ہوں۔ اور جو فضل اُس نے مجھ پر کیا وہ بےاثر نہ رہا، کیونکہ مَیں نے اُن سب سے زیادہ جاں فشانی سے کام کیا ہے۔ البتہ یہ کام مَیں نے خود نہیں بلکہ اللہ کے فضل نے کیا ہے جو میرے ساتھ تھا۔ خیر، یہ کام مَیں نے کیا یا اُنہوں نے، ہم سب اُسی پیغام کی منادی کرتے ہیں جس پر آپ ایمان لائے ہیں۔ اب مجھے یہ بتائیں، ہم تو منادی کرتے ہیں کہ مسیح مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے۔ تو پھر آپ میں سے کچھ لوگ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ مُردے جی نہیں اُٹھتے؟ اگر مُردے جی نہیں اُٹھتے تو مطلب یہ ہوا کہ مسیح بھی نہیں جی اُٹھا۔ اور اگر مسیح جی نہیں اُٹھا تو پھر ہماری منادی عبث ہوتی اور آپ کا ایمان لانا بھی بےفائدہ ہوتا۔ نیز ہم اللہ کے بارے میں جھوٹے گواہ ثابت ہوتے۔ کیونکہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ نے مسیح کو زندہ کیا جبکہ اگر واقعی مُردے نہیں جی اُٹھتے تو وہ بھی زندہ نہیں ہوا۔ غرض اگر مُردے جی نہیں اُٹھتے تو پھر مسیح بھی نہیں جی اُٹھا۔ اور اگر مسیح نہیں جی اُٹھا تو آپ کا ایمان بےفائدہ ہے اور آپ اب تک اپنے گناہوں میں گرفتار ہیں۔ ہاں، اِس کے مطابق جنہوں نے مسیح میں ہوتے ہوئے انتقال کیا ہے وہ سب ہلاک ہو گئے ہیں۔ چنانچہ اگر مسیح پر ہماری اُمید صرف اِسی زندگی تک محدود ہے تو ہم انسانوں میں سب سے زیادہ قابلِ رحم ہیں۔ لیکن مسیح واقعی مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے۔ وہ انتقال کئے ہوؤں کی فصل کا پہلا پھل ہے۔ چونکہ انسان کے وسیلے سے موت آئی، اِس لئے انسان ہی کے وسیلے سے مُردوں کے جی اُٹھنے کی بھی راہ کھلی۔ جس طرح سب اِس لئے مرتے ہیں کہ وہ آدم کے فرزند ہیں اُسی طرح سب زندہ کئے جائیں گے جو مسیح کے ہیں۔ لیکن جی اُٹھنے کی ایک ترتیب ہے۔ مسیح تو فصل کے پہلے پھل کی حیثیت سے جی اُٹھ چکا ہے جبکہ اُس کے لوگ اُس وقت جی اُٹھیں گے جب وہ واپس آئے گا۔ اِس کے بعد خاتمہ ہو گا۔ تب ہر حکومت، اختیار اور قوت کو نیست کر کے وہ بادشاہی کو خدا باپ کے حوالے کر دے گا۔ کیونکہ لازم ہے کہ مسیح اُس وقت تک حکومت کرے جب تک اللہ تمام دشمنوں کو اُس کے پاؤں کے نیچے نہ کر دے۔ آخری دشمن جسے نیست کیا جائے گا موت ہو گی۔ کیونکہ اللہ کے بارے میں کلامِ مُقدّس میں لکھا ہے، ”اُس نے سب کچھ اُس (یعنی مسیح) کے پاؤں کے نیچے کر دیا۔“ جب کہا گیا ہے کہ سب کچھ مسیح کے ماتحت کر دیا گیا ہے، تو ظاہر ہے کہ اِس میں اللہ شامل نہیں جس نے سب کچھ مسیح کے ماتحت کیا ہے۔ جب سب کچھ مسیح کے ماتحت کر دیا گیا تب فرزند خود بھی اُسی کے ماتحت ہو جائے گا جس نے سب کچھ اُس کے ماتحت کیا۔ یوں اللہ سب میں سب کچھ ہو گا۔ اگر مُردے واقعی جی نہیں اُٹھتے تو پھر وہ لوگ کیا کریں گے جو مُردوں کی خاطر بپتسمہ لیتے ہیں؟ اگر مُردے جی نہیں اُٹھیں گے تو پھر وہ اُن کی خاطر کیوں بپتسمہ لیتے ہیں؟ اور ہم بھی ہر وقت اپنی جان خطرے میں کیوں ڈالے ہوئے ہیں؟ بھائیو، مَیں روزانہ مرتا ہوں۔ یہ بات اُتنی ہی یقینی ہے جتنی یہ کہ آپ ہمارے خداوند مسیح عیسیٰ میں میرا فخر ہیں۔ اگر مَیں صرف اِسی زندگی کی اُمید رکھتے ہوئے اِفسس میں وحشی درندوں سے لڑا تو مجھے کیا فائدہ ہوا؟ اگر مُردے جی نہیں اُٹھتے تو اِس قول کے مطابق زندگی گزارنا بہتر ہو گا کہ ”آؤ، ہم کھائیں پئیں، کیونکہ کل تو مر ہی جانا ہے۔“ فریب نہ کھائیں، بُری صحبت اچھی عادتوں کو بگاڑ دیتی ہے۔ پورے طور پر ہوش میں آئیں اور گناہ نہ کریں۔ آپ میں سے بعض ایسے ہیں جو اللہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ یہ بات مَیں آپ کو شرم دلانے کے لئے کہتا ہوں۔