YouVersion Logo
تلاش

رومیوں 1:3-31

رومیوں 1:3-31 اُردو ہم عصر ترجُمہ (UCV)

کیا یہُودی کا درجہ اُونچا ہے اَور ختنہ کا کویٔی فائدہ ہے؟ بہت ہے اَور ہر لِحاظ سے ہے۔ خصوصاً یہ کہ خُدا کا کلام اُن کے سُپرد کیا گیا۔ بعض بے وفا نکلے تو کیا ہُوا؟ کیا اُن کی بے وفائی خُدا کی وفاداری کو باطِل کر سکتی ہے؟ ہر گز نہیں، خواہ ہر آدمی جھُوٹانکلے، خُدا سچّا ہی ٹھہرے گا جَیسا کہ کِتاب مُقدّس میں لِکھّا ہے: ”تُم اَپنی باتوں میں راستباز ٹھہرو اَور اَپنے اِنصاف میں حق بجانب ثابت ہو۔“ میں بطور اِنسان یہ بات کہتا ہُوں کہ اگر ہماری ناراستی خُدا کی راستبازی کی صِفت کو زِیادہ صفائی سے ظاہر کرتی ہے تو کیا ہم یہ کہیں کہ خُدا بےاِنصاف ہے جو ہم پر غضب نازل کرتا ہے؟ میں اِنسانی دلیل اِستعمال کر رہا ہُوں۔ ہر گز نہیں۔ اِس صورت میں خُدا دُنیا کا اِنصاف کیسے کرے گا؟ شاید کویٔی یہ کہے، ”اگر میرے جھُوٹ کے سبب سے خُدا کی سچّائی زِیادہ صفائی سے نظر آتی ہے اَور خُدا کا جلال ظاہر ہوتاہے تو پھر میں کیوں گنہگار شُمار کیا جاتا ہُوں؟“ کیوں نہ یہ کہیں۔ ”آؤ ہم بدی کریں تاکہ بھلائی پیدا ہو؟“ اِنصاف کا تَقاضا تُو یہ ہے! پھر نتیجہ کیا نکلا؟ کیا ہم یہُودی دُوسروں سے بہتر ہیں؟ ہر گز نہیں! ہم تو پہلے ہی ثابت کرچُکے ہیں کہ یہُودی اَور غَیر یُونانی سَب کے سَب گُناہ کے قبضہ میں ہیں۔ جَیسا کہ کِتاب مُقدّس میں لِکھّا ہے: ”کویٔی بھی اِنسان راستباز نہیں، ایک بھی نہیں؛ کویٔی بھی سمجھدار نہیں، کویٔی بھی خُدا کا مِتلاشی نہیں۔ سَب کے سَب خُدا سے گُمراہ ہو گئے، وہ کسی کام کے نہیں رہے؛ اُن میں کویٔی بھی اِنسان نہیں جو نیکی کرتا ہو، ایک بھی نہیں۔“ ”اُن کے حلق کھُلی ہویٔی قبروں کی مانِند ہیں؛ اُن کی زبانوں سے دغابازی کی باتیں نکلتی ہیں۔“ ”اُن کے لبوں پر افعی کا زہر ہوتاہے۔“ ”اُن کے مُنہ لعنت اَور کڑواہٹ سے بھرے ہویٔے ہیں۔“ ”اُن کے قدم خُون بہانے کے لیٔے تیز رفتار ہو جاتے ہیں؛ اُن کی راہوں میں تباہی اَور بَدحالی ہے، اَور وہ سلامتی کی راہ سے وہ سدا سے ہی اَنجان ہیں۔“ ”نہ ہی اُن کی آنکھوں میں خُدا کا خوف ہے۔“ اَب ہم جانتے ہیں کہ شَریعت جو کچھ کہتی ہے اُن سے کہتی ہے جو شَریعت کے ماتحت ہیں تاکہ ہر مُنہ بندہو جائے اَور ساری دُنیا خُدا کے سامنے سزا کی مُستحق ٹھہرے۔ کیونکہ شَریعت کے اعمال سے کویٔی شخص خُدا کی حُضُوری میں راستباز نہیں ٹھہرے گا؛ اِس لیٔے کہ شَریعت کے ذریعہ سے ہی آدمی گُناہ کو پہچانتا ہے۔ مگر اَب خُدا نے ایک اَیسی راستبازی ظاہر کی ہے جِس کا تعلّق شَریعت سے نہیں ہے حالانکہ شَریعت اَور نَبیوں کی کِتابیں اِس کی گواہی ضروُر دیتی ہیں۔ یہ خُدا کی وہ راستبازی ہے جو صِرف حُضُور عیسیٰ المسیؔح پر ایمان لانے سے اُن تمام اِنسانوں کو حاصل ہوتی ہے۔ المسیؔح پر ایمان لانے سے یہُودی اَور غَیریہُودی کے مابین کویٔی تفرِیق نہیں، کیونکہ سَب نے گُناہ کیا ہے اَور خُدا کے جلال سے محروم ہیں، مگر اُن کے فضل کے سبب اُس مخلصی کے وسیلہ سے جو حُضُور المسیؔح عیسیٰ میں ہے، مُفت راستباز ٹھہرائے جاتے ہیں۔ خُدا نے حُضُور عیسیٰ کو مُقرّر کیا کہ وہ اَپنا خُون بہائیں اَور اِنسان کے گُناہ کا کفّارہ بَن جایٔیں اَور اُن پر ایمان لانے والے فائدہ اُٹھائیں۔ یہ کفّارہ خُدا کی راستبازی کو ظاہر کرتا ہے اِس لیٔے کہ خُدا نے بَڑے صبر اَور تحمُّل کے ساتھ اُن گُناہوں کو جو پیشتر ہو چُکے تھے، دَر گزر کیا۔ خُدا اِس زمانہ میں بھی اَپنی راستبازی ظاہر کرتا ہے کیونکہ وہ عادل بھی ہے اَور ہر شخص کو جو حُضُور عیسیٰ پر ایمان لاتا ہے راستباز ٹھہراتا ہے۔ پس فخر کہاں رہا؟ اِس کی گنجائِش ہی نہ رہی۔ کِس کے وسیلہ سے؟ کیا شَریعت پر عَمل کرنے کے وسیلہ سے؟ نہیں، بَلکہ ایمان کے وسیلہ سے۔ چنانچہ ہم اِس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اِنسان شَریعت پر عَمل کرنے سے نہیں بَلکہ ایمان لانے کے باعث خُدا کے حُضُور میں راستباز ٹھہرتا ہے۔ کیا خُدا صِرف یہُودیوں کاہے؟ کیا وہ غَیریہُودیوں کا خُدا نہیں؟ بے شک، وہ غَیریہُودیوں کا بھی ہے۔ سچ تُو یہ ہے کہ خُدا ہی وہ واحد خُدا ہے جو مختونوں کو اُن کے ایمان لانے کی بِنا پر اَور نامختونوں کو بھی اُن کے ایمان ہی کے وسیلہ سے راستباز ٹھہرائے گا۔ کیا ہم اِس ایمان کے ذریعہ سے شَریعت کو منسُوخ کردیتے ہیں؟ ہر گز نہیں! بَلکہ، اِس سے شَریعت کو قائِم رکھتے ہیں۔

دوسروں تک پہنچائیں
پڑھیں رومیوں 3

رومیوں 1:3-31 ہولی بائبل کا اردو جیو ورژن (URDGVU)

تو کیا یہودی ہونے کا یا ختنہ کا کوئی فائدہ ہے؟ جی ہاں، ہر طرح کا! اوّل تو یہ کہ اللہ کا کلام اُن کے سپرد کیا گیا ہے۔ اگر اُن میں سے بعض بےوفا نکلے تو کیا ہوا؟ کیا اِس سے اللہ کی وفاداری بھی ختم ہو جائے گی؟ کبھی نہیں! لازم ہے کہ اللہ سچا ٹھہرے گو ہر انسان جھوٹا ہے۔ یوں کلامِ مُقدّس میں لکھا ہے، ”لازم ہے کہ تُو بولتے وقت راست ٹھہرے اور عدالت کرتے وقت غالب آئے۔“ کوئی کہہ سکتا ہے، ”ہماری ناراستی کا ایک اچھا مقصد ہوتا ہے، کیونکہ اِس سے لوگوں پر اللہ کی راستی ظاہر ہوتی ہے۔ تو کیا اللہ بےانصاف نہیں ہو گا اگر وہ اپنا غضب ہم پر نازل کرے؟“ (مَیں انسانی خیال پیش کر رہا ہوں)۔ ہرگز نہیں! اگر اللہ راست نہ ہوتا تو پھر وہ دنیا کی عدالت کس طرح کر سکتا؟ شاید کوئی اَور اعتراض کرے، ”اگر میرا جھوٹ اللہ کی سچائی کو کثرت سے نمایاں کرتا ہے اور یوں اُس کا جلال بڑھتا ہے تو وہ مجھے کیوں کر گناہ گار قرار دے سکتا ہے؟“ کچھ لوگ ہم پر یہ کفر بھی بکتے ہیں کہ ہم کہتے ہیں، ”آؤ، ہم بُرائی کریں تاکہ بھلائی نکلے۔“ انصاف کا تقاضا ہے کہ ایسے لوگوں کو مجرم ٹھہرایا جائے۔ اب ہم کیا کہیں؟ کیا ہم یہودی دوسروں سے برتر ہیں؟ بالکل نہیں۔ ہم تو پہلے ہی یہ الزام لگا چکے ہیں کہ یہودی اور یونانی سب ہی گناہ کے قبضے میں ہیں۔ کلامِ مُقدّس میں یوں لکھا ہے، ”کوئی نہیں جو راست باز ہے، ایک بھی نہیں۔ کوئی نہیں جو سمجھ دار ہے، کوئی نہیں جو اللہ کا طالب ہے۔ افسوس، سب صحیح راہ سے بھٹک گئے، سب کے سب بگڑ گئے ہیں۔ کوئی نہیں جو بھلائی کرتا ہو، ایک بھی نہیں۔ اُن کا گلا کھلی قبر ہے، اُن کی زبان فریب دیتی ہے۔ اُن کے ہونٹوں میں سانپ کا زہر ہے۔ اُن کا منہ لعنت اور کڑواہٹ سے بھرا ہے۔ اُن کے پاؤں خون بہانے کے لئے جلدی کرتے ہیں۔ اپنے پیچھے وہ تباہی و بربادی چھوڑ جاتے ہیں، اور وہ سلامتی کی راہ نہیں جانتے۔ اُن کی آنکھوں کے سامنے خدا کا خوف نہیں ہوتا۔“ اب ہم جانتے ہیں کہ شریعت جو کچھ فرماتی ہے اُنہیں فرماتی ہے جن کے سپرد وہ کی گئی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ہر انسان کے بہانے ختم کئے جائیں اور تمام دنیا اللہ کے سامنے مجرم ٹھہرے۔ کیونکہ شریعت کے تقاضے پورے کرنے سے کوئی بھی اُس کے سامنے راست باز نہیں ٹھہر سکتا، بلکہ شریعت کا کام یہ ہے کہ ہمارے اندر گناہ گار ہونے کا احساس پیدا کرے۔ لیکن اب اللہ نے ہم پر ایک راہ کا انکشاف کیا ہے جس سے ہم شریعت کے بغیر ہی اُس کے سامنے راست باز ٹھہر سکتے ہیں۔ توریت اور نبیوں کے صحیفے بھی اِس کی تصدیق کرتے ہیں۔ راہ یہ ہے کہ جب ہم عیسیٰ مسیح پر ایمان لاتے ہیں تو اللہ ہمیں راست باز قرار دیتا ہے۔ اور یہ راہ سب کے لئے ہے۔ کیونکہ کوئی بھی فرق نہیں، سب نے گناہ کیا، سب اللہ کے اُس جلال سے محروم ہیں جس کا وہ تقاضا کرتا ہے، اور سب مفت میں اللہ کے فضل ہی سے راست باز ٹھہرائے جاتے ہیں، اُس فدئیے کے وسیلے سے جو مسیح عیسیٰ نے دیا۔ کیونکہ اللہ نے عیسیٰ کو اُس کے خون کے باعث کفارہ کا وسیلہ بنا کر پیش کیا، ایسا کفارہ جس سے ایمان لانے والوں کو گناہوں کی معافی ملتی ہے۔ یوں اللہ نے اپنی راستی ظاہر کی، پہلے ماضی میں جب وہ اپنے صبر و تحمل میں گناہوں کی سزا دینے سے باز رہا اور اب موجودہ زمانے میں بھی۔ اِس سے وہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ راست ہے اور ہر ایک کو راست باز ٹھہراتا ہے جو عیسیٰ پر ایمان لایا ہے۔ اب ہمارا فخر کہاں رہا؟ اُسے تو ختم کر دیا گیا ہے۔ کس شریعت سے؟ کیا اعمال کی شریعت سے؟ نہیں، بلکہ ایمان کی شریعت سے۔ کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ انسان کو ایمان سے راست باز ٹھہرایا جاتا ہے، نہ کہ اعمال سے۔ کیا اللہ صرف یہودیوں کا خدا ہے؟ غیریہودیوں کا نہیں؟ ہاں، غیریہودیوں کا بھی ہے۔ کیونکہ اللہ ایک ہی ہے جو مختون اور نامختون دونوں کو ایمان ہی سے راست باز ٹھہرائے گا۔ پھر کیا ہم شریعت کو ایمان سے منسوخ کرتے ہیں؟ ہرگز نہیں، بلکہ ہم شریعت کو قائم رکھتے ہیں۔

دوسروں تک پہنچائیں
پڑھیں رومیوں 3

رومیوں 1:3-31 کِتابِ مُقادّس (URD)

پس یہُودی کو کیا فَوقِیّت ہے اور خَتنہ سے کیا فائِدہ؟ ہر طرح سے بُہت۔ خاص کر یہ کہ خُدا کا کلام اُن کے سپُرد ہُؤا۔ اگر بعض بے وفا نِکلے تو کیا ہُؤا؟ کیا اُن کی بے وفائی خُدا کی وفاداری کو باطِل کر سکتی ہے؟ ہرگِز نہیں۔ بلکہ خُدا سچّا ٹھہرے اور ہر ایک آدمی جُھوٹا۔ چُنانچہ لِکھا ہے کہ تُو اپنی باتوں میں راست باز ٹھہرے اور اپنے مُقدّمہ میں فتح پائے۔ اگر ہماری ناراستی خُدا کی راست بازی کی خُوبی کو ظاہِر کرتی ہے تو ہم کیا کہیں؟ کیا یہ کہ خُدا بے اِنصاف ہے جو غضب نازِل کرتا؟ (مَیں یہ بات اِنسان کی طرح کہتا ہُوں)۔ ہرگِز نہیں۔ ورنہ خُدا کیوں کر دُنیا کا اِنصاف کرے گا؟ اگر میرے جُھوٹ کے سبب سے خُدا کی سچّائی اُس کے جلال کے واسطے زیادہ ظاہِر ہُوئی تو پِھر کیوں گُنہگار کی طرح مُجھ پر حُکم دِیا جاتا ہے؟ اور ہم کیوں بُرائی نہ کریں تاکہ بھلائی پَیدا ہو؟ چُنانچہ ہم پر یہ تُہمت لگائی بھی جاتی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ اِن کا یہی مقُولہ ہے مگر اَیسوں کا مُجرِم ٹھہرنا اِنصاف ہے۔ پس کیا ہُؤا؟ کیا ہم کُچھ فضِیلت رکھتے ہیں؟ بِالکُل نہیں کیونکہ ہم یہُودِیوں اور یُونانیوں دونوں پر پیشتر ہی یہ اِلزام لگا چُکے ہیں کہ وہ سب کے سب گُناہ کے ماتحت ہیں۔ چُنانچہ لِکھا ہے کہ کوئی راست باز نہیں۔ ایک بھی نہیں۔ کوئی سمجھ دار نہیں۔ کوئی خُدا کا طالِب نہیں۔ سب گُمراہ ہیں سب کے سب نِکمّے بن گئے۔ کوئی بھلائی کرنے والا نہیں۔ ایک بھی نہیں۔ اُن کا گلا کُھلی ہُوئی قبر ہے۔ اُنہوں نے اپنی زُبانوں سے فریب دِیا۔ اُن کے ہونٹوں میں سانپوں کا زہر ہے۔ اُن کا مُنہ لَعنت اور کڑواہٹ سے بَھرا ہے۔ اُن کے قدم خُون بہانے کے لِئے تیز رَو ہیں۔ اُن کی راہوں میں تباہی اور بَدحالی ہے۔ اور وہ سلامتی کی راہ سے واقِف نہ ہُوئے۔ اُن کی آنکھوں میں خُدا کا خَوف نہیں۔ اب ہم جانتے ہیں کہ شرِیعت جو کُچھ کہتی ہے اُن سے کہتی ہے جو شرِیعت کے ماتحت ہیں تاکہ ہر ایک کا مُنہ بند ہو جائے اور ساری دُنیا خُدا کے نزدِیک سزا کے لائِق ٹھہرے۔ کیونکہ شرِیعت کے اَعمال سے کوئی بشر اُس کے حضُور راست باز نہیں ٹھہرے گا۔ اِس لِئے کہ شرِیعت کے وسِیلہ سے تو گُناہ کی پہچان ہی ہوتی ہے۔ مگر اب شرِیعت کے بغَیر خُدا کی ایک راست بازی ظاہِر ہُوئی ہے جِس کی گواہی شرِیعت اور نبِیوں سے ہوتی ہے۔ یعنی خُدا کی وہ راست بازی جو یِسُوعؔ مسِیح پر اِیمان لانے سے سب اِیمان لانے والوں کو حاصِل ہوتی ہے کیونکہ کُچھ فرق نہیں۔ اِس لِئے کہ سب نے گُناہ کِیا اور خُدا کے جلال سے محرُوم ہیں۔ مگر اُس کے فضل کے سبب سے اُس مخلصی کے وسِیلہ سے جو مسِیح یِسُوعؔ میں ہے مُفت راست باز ٹھہرائے جاتے ہیں۔ اُسے خُدا نے اُس کے خُون کے باعِث ایک اَیسا کفّارہ ٹھہرایا جو اِیمان لانے سے فائِدہ مند ہو تاکہ جو گُناہ پیشتر ہو چُکے تھے اور جِن سے خُدا نے تحمُّل کر کے طرح دی تھی اُن کے بارے میں وہ اپنی راست بازی ظاہِر کرے۔ بلکہ اِسی وقت اُس کی راست بازی ظاہِر ہو تاکہ وہ خُود بھی عادِل رہے اور جو یِسُوع پر اِیمان لائے اُس کو بھی راست باز ٹھہرانے والا ہو۔ پس فخر کہاں رہا؟ اِس کی گُنجایش ہی نہیں۔ کَون سی شرِیعت کے سبب سے؟ کیا اَعمال کی شرِیعت سے؟ نہیں بلکہ اِیمان کی شرِیعت سے۔ چُنانچہ ہم یہ نتِیجہ نِکالتے ہیں کہ اِنسان شرِیعت کے اَعمال کے بغَیر اِیمان کے سبب سے راست باز ٹھہرتا ہے۔ کیا خُدا صِرف یہُودِیوں ہی کا ہے غَیر قَوموں کا نہیں؟ بے شک غَیر قَوموں کا بھی ہے۔ کیونکہ ایک ہی خُدا ہے جو مَختُونوں کو بھی اِیمان سے اور نامختُونوں کو بھی اِیمان ہی کے وسِیلہ سے راست باز ٹھہرائے گا۔ پس کیا ہم شرِیعت کو اِیمان سے باطِل کرتے ہیں؟ ہرگِز نہیں بلکہ شرِیعت کو قائِم رکھتے ہیں۔

دوسروں تک پہنچائیں
پڑھیں رومیوں 3