مرقس 10:4-41

مرقس 10:4-41 اُردو ہم عصر ترجُمہ (UCV)

جَب وہ تنہائی میں تھے، یِسوعؔ کے بَارہ شاگردوں اَور دُوسرے ساتھیوں نے آپ سے اِن تمثیلوں کے بارے میں پُوچھا۔ آپ نے اُن سے فرمایا، ”تُمہیں تو خُدا کی بادشاہی کے رازوں کو سمجھنے کی قابلیّت دی گئی ہے۔ لیکن باہر والوں کے لیٔے ساری باتیں تمثیلوں میں بَیان کی جاتی ہیں، لہٰذا، ” ’وہ دیکھتے ہویٔے بھی، کُچھ نہیں دیکھتے؛ اَور سُنتے ہُوئے بھی کبھی کُچھ نہیں سمجھتے؛ اَیسا نہ ہو کہ وہ تَوبہ کریں اَور گُناہوں کی مُعافی حاصل کر لیں!‘“ پھر یِسوعؔ نے اُن سے کہا، ”اگر تُم یہ تمثیل نہیں سمجھے تو باقی سَب تمثیلیں؟ کیسے سمجھوگے؟ بونے والا خُدا کے کلام کا بیج بوتا ہے۔ کُچھ لوگ جنہیں کلام سُنایا جاتا ہے راہ کے کنارے والے ہیں۔ جُوں ہی کلام کا بیج بویا جاتا ہے، شیطان آتا ہے اَور اُن کے دِلوں سے وہ کلام نکال لے جاتا ہے۔ اِسی طرح، وہ لوگ پتھریلی جگہوں پر بوئے ہویٔے بیجوں کی طرح ہیں، وہ خُدا کے کلام کو سُنتے ہی خُوشی کے ساتھ سے قبُول کرلیتے ہیں۔ مگر وہ کلام اُن میں جڑ نہیں پکڑ پاتا، چنانچہ وہ کُچھ دِنوں تک ہی قائِم رہتے ہیں۔ اَور جَب اُن پر اِس کلام کی وجہ سے مُصیبت یااِیذا برپا ہوتی ہے تو وہ فوراً گِر جاتے ہیں۔ اَور دیگر، جھاڑیوں میں گِرنے والے بیج سے مُراد وہ لوگ ہیں، جو کلام کو سُنتے تو ہیں؛ لیکن اِس دُنیا کی فکریں، دولت کا فریب اَور دُوسری چیزوں کا لالچ آڑے آکر اِس کلام کو دبا دیتاہے، اَور وہ بے نتیجہ ہو جاتا ہے۔ جو لوگ، اُس اَچھّی زمین کی طرح ہیں جہاں بیج بویا جاتا ہے، وہ کلام کو سُنتے ہیں، قبُول کرتے ہیں، اَور پھل لاتے ہیں، بعض تیس گُنا، بعض ساٹھ گُنا، اَور بعض سَو گُنا۔“ یِسوعؔ نے اُن سے کہا، ”کیا تُم چراغ کو اِس لیٔے جَلاتے ہو کہ اُسے ٹوکرے یا چارپائی کے نیچے رکھا جائے؟ کیا اِس لیٔے نہیں جَلاتے کہ اُسے چراغدان پر رکھا جائے؟ کیونکہ اگر کویٔی چیز چھپی ہویٔی ہے، تو اِس لیٔے کہ ظاہر کی جائے اَورجو کچھ ڈھکا ہُواہے تو اِس لیٔے کہ اُس کا پردہ فاش کیا جائے گا۔ جِس کے پاس سُننے کے کان ہوں، وہ سُن لے۔“ پھر آپ نے اُن سے فرمایا، ”تُم کیا سُنتے ہو اُس کے بارے میں غور کرو، جِس پیمانہ سے تُم ناپتے ہو، تُمہیں بھی اُسی ناپ سے ناپا جائے گا بَلکہ کُچھ زِیادہ ہی۔ کیونکہ جِس کے پاس ہے اُسے اَور بھی دیا جائے گا اَور اُس کے پاس اِفراط سے ہوگا لیکن جِس کے پاس نہیں ہے، اُس سے وہ بھی جو اُس کے پاس ہے، لے لیا جائے گا۔“ آپ نے یہ بھی فرمایا، ”خُدا کی بادشاہی اُس آدمی کی مانِند ہے جو زمین میں بیج ڈالتا ہے۔ رات اَور دِن چاہے، وہ سوئے یا جاگتا رہے، بیج اُگ کر آہستہ آہستہ بڑھتے رہتے ہیں اَور سے مَعلُوم بھی نہیں پڑتا، وہ کیسے اُگتے اَور بڑھتے ہیں۔ زمین خُود بخُود پھل لاتی ہے پہلے پتّی نکلتی ہے، پھر بالیں پیدا ہوتی ہیں اَور پھر اُن میں دانے بھر جاتے ہیں۔ جِس وقت اناج پک چُکا ہوتاہے، تو وہ فوراً درانتی لے آتا ہے کیونکہ فصل کاٹنے کا وقت آ پہُنچا۔“ پھر آپ نے فرمایا، ”ہم خُدا کی بادشاہی کو کِس چیز کی مانِند کہیں، یا کِس تمثیل کے ذریعہ سے بَیان کریں؟ وہ رائی کے دانے کی طرح ہے، جو زمین میں بوئے جانے والے بیجوں میں سَب سے چھوٹا ہوتاہے۔ مگر بوئے جانے کے بعد اُگتا ہے، تو پَودوں میں سَب سے بڑا ہو جاتا ہے، اَور اُس کی شاخیں، اِس قدر بڑھ جاتی ہیں کہ ہَوا کے پرندے اُس کے سایہ میں بسیرا کر سکتے ہیں۔“ اِسی قِسم کی کیٔی تمثیلوں، کے ذریعہ آپ لوگوں سے اُن کی سمجھ کے مُطابق کلام کیا کرتے تھے۔ اَور بغیر تمثیل کے آپ اُنہیں کُچھ نہ کہتے تھے، لیکن جَب یِسوعؔ کے شاگرد تنہا ہوتے، تو وہ اُنہیں تمثیلوں کے معنی سمجھا دیا کرتے تھے۔ اُسی دِن جَب شام ہویٔی، آپ نے اَپنے شاگردوں سے فرمایا، ”جھیل کے اُس پار چلیں۔“ چنانچہ وہ ہُجوم کو رخصت کرکے، اَور آپ کو جِس حال میں وہ تھے، کشتی میں اَپنے ساتھ لے کر، روانہ ہویٔے۔ کُچھ اَور کشتیاں بھی اُن کے ساتھ تھیں۔ اَچانک آندھی آئی، اَور پانی کی لہریں کشتی سے بُری طرح ٹکرانے لگیں، اَور اُس میں پانی بھرنے لگا۔ یِسوعؔ کشتی کے پچھلے حِصّہ میں ایک تکیہ لگا کر آرام فرما رہے تھے۔ شاگردوں نے آپ کو جگایا اَور کہا، ”اُستاد محترم، ہم تو ڈُوبے جا رہے ہیں۔ آپ کو ہماری کویٔی پروا نہیں ہے؟“ وہ جاگ اُٹھے، یِسوعؔ نے ہَوا کو حُکم دیا اَور لہروں کو ڈانٹا، ”خاموش رہ! تھم جا!“ ہَوا تھم گئی اَور بڑا اَمن ہو گیا۔ یِسوعؔ نے شاگردوں سے کہا، ”تُم اِس قدر خوفزدہ کیوں رہتے ہو؟ ایمان کیوں نہیں رکھتے؟“ مگر وہ حَد سے زِیادہ ڈر گیٔے اَور ایک دُوسرے سے کہنے لگے، ”یہ کون ہے کہ ہَوا اَور لہریں بھی اِن کا حُکم مانتے ہیں!“

دوسروں تک پہنچائیں
پڑھیں مرقس 4

مرقس 10:4-41 ہولی بائبل کا اردو جیو ورژن (URDGVU)

جب وہ اکیلا تھا تو جو لوگ اُس کے ارد گرد جمع تھے اُنہوں نے بارہ شاگردوں سمیت اُس سے پوچھا کہ اِس تمثیل کا کیا مطلب ہے؟ اُس نے جواب دیا، ”تم کو تو اللہ کی بادشاہی کا بھید سمجھنے کی لیاقت دی گئی ہے۔ لیکن مَیں اِس دائرے سے باہر کے لوگوں کو ہر بات سمجھانے کے لئے تمثیلیں استعمال کرتا ہوں تاکہ پاک کلام پورا ہو جائے کہ ’وہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے مگر کچھ نہیں جانیں گے، وہ اپنے کانوں سے سنیں گے مگر کچھ نہیں سمجھیں گے، ایسا نہ ہو کہ وہ میری طرف رجوع کریں اور اُنہیں معاف کر دیا جائے‘۔“ پھر عیسیٰ نے اُن سے کہا، ”کیا تم یہ تمثیل نہیں سمجھتے؟ تو پھر باقی تمام تمثیلیں کس طرح سمجھ پاؤ گے؟ بیج بونے والا اللہ کا کلام بو دیتا ہے۔ راستے پر گرنے والے دانے وہ لوگ ہیں جو کلام کو سنتے تو ہیں، لیکن پھر ابلیس فوراً آ کر وہ کلام چھین لیتا ہے جو اُن میں بویا گیا ہے۔ پتھریلی زمین پر گرنے والے دانے وہ لوگ ہیں جو کلام سنتے ہی اُسے خوشی سے قبول تو کر لیتے ہیں، لیکن وہ جڑ نہیں پکڑتے اور اِس لئے زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتے۔ جوں ہی وہ کلام پر ایمان لانے کے باعث کسی مصیبت یا ایذا رسانی سے دوچار ہو جائیں، تو وہ برگشتہ ہو جاتے ہیں۔ خود رَو کانٹےدار پودوں کے درمیان گرے ہوئے دانے وہ لوگ ہیں جو کلام سنتے تو ہیں، لیکن پھر روزمرہ کی پریشانیاں، دولت کا فریب اور دیگر چیزوں کا لالچ کلام کو پھلنے پھولنے نہیں دیتے۔ نتیجے میں وہ پھل لانے تک نہیں پہنچتا۔ اِس کے مقابلے میں زرخیز زمین میں گرے ہوئے دانے وہ لوگ ہیں جو کلام سن کر اُسے قبول کرتے اور بڑھتے بڑھتے تیس گُنا، ساٹھ گُنا بلکہ سَو گُنا تک پھل لاتے ہیں۔“ عیسیٰ نے بات جاری رکھی اور کہا، ”کیا چراغ کو اِس لئے جلا کر لایا جاتا ہے کہ وہ کسی برتن یا چارپائی کے نیچے رکھا جائے؟ ہرگز نہیں! اُسے شمع دان پر رکھا جاتا ہے۔ کیونکہ جو کچھ بھی اِس وقت پوشیدہ ہے اُسے آخرکار ظاہر ہو جانا ہے اور تمام بھیدوں کو ایک دن کھل جانا ہے۔ اگر کوئی سن سکے تو سن لے۔“ اُس نے اُن سے یہ بھی کہا، ”اِس پر دھیان دو کہ تم کیا سنتے ہو۔ جس حساب سے تم دوسروں کو دیتے ہو اُسی حساب سے تم کو بھی دیا جائے گا بلکہ تم کو اُس سے بڑھ کر ملے گا۔ کیونکہ جسے کچھ حاصل ہوا ہے اُسے اَور بھی دیا جائے گا، جبکہ جسے کچھ حاصل نہیں ہوا اُس سے وہ تھوڑا بہت بھی چھین لیا جائے گا جو اُسے حاصل ہے۔“ پھر عیسیٰ نے کہا، ”اللہ کی بادشاہی یوں سمجھ لو: ایک کسان زمین میں بیج بکھیر دیتا ہے۔ یہ بیج پھوٹ کر دن رات اُگتا رہتا ہے، خواہ کسان سو رہا یا جاگ رہا ہو۔ اُسے معلوم نہیں کہ یہ کیونکر ہوتا ہے۔ زمین خود بخود اناج کی فصل پیدا کرتی ہے۔ پہلے پتے نکلتے ہیں، پھر بالیں نظر آنے لگتی ہیں اور آخر میں دانے پیدا ہو جاتے ہیں۔ اور جوں ہی اناج کی فصل پک جاتی ہے کسان آ کر درانتی سے اُسے کاٹ لیتا ہے، کیونکہ فصل کی کٹائی کا وقت آ چکا ہوتا ہے۔“ پھر عیسیٰ نے کہا، ”ہم اللہ کی بادشاہی کا موازنہ کس چیز سے کریں؟ یا ہم کون سی تمثیل سے اِسے بیان کریں؟ وہ رائی کے دانے کی مانند ہے جو زمین میں ڈالا گیا ہو۔ رائی بیجوں میں سب سے چھوٹا دانہ ہے لیکن بڑھتے بڑھتے سبزیوں میں سب سے بڑا ہو جاتا ہے۔ اُس کی شاخیں اِتنی لمبی ہو جاتی ہیں کہ پرندے اُس کے سائے میں اپنے گھونسلے بنا سکتے ہیں۔“ عیسیٰ اِسی قسم کی بہت سی تمثیلوں کی مدد سے اُنہیں کلام یوں سناتا تھا کہ وہ اِسے سمجھ سکتے تھے۔ ہاں، عوام کو وہ صرف تمثیلوں کے ذریعے سکھاتا تھا۔ لیکن جب وہ اپنے شاگردوں کے ساتھ اکیلا ہوتا تو وہ ہر بات کی تشریح کرتا تھا۔ اُس دن جب شام ہوئی تو عیسیٰ نے اپنے شاگردوں سے کہا، ”آؤ، ہم جھیل کے پار چلیں۔“ چنانچہ وہ بھیڑ کو رُخصت کر کے اُسے لے کر چل پڑے۔ بعض اَور کشتیاں بھی ساتھ گئیں۔ اچانک سخت آندھی آئی۔ لہریں کشتی سے ٹکرا کر اُسے پانی سے بھرنے لگیں، لیکن عیسیٰ ابھی تک کشتی کے پچھلے حصے میں اپنا سر گدی پر رکھے سو رہا تھا۔ شاگردوں نے اُسے جگا کر کہا، ”اُستاد، کیا آپ کو پروا نہیں کہ ہم تباہ ہو رہے ہیں؟“ وہ جاگ اُٹھا، آندھی کو ڈانٹا اور جھیل سے کہا، ”خاموش! چپ کر!“ اِس پر آندھی تھم گئی اور لہریں بالکل ساکت ہو گئیں۔ پھر عیسیٰ نے شاگردوں سے پوچھا، ”تم کیوں گھبراتے ہو؟ کیا تم ابھی تک ایمان نہیں رکھتے؟“ اُن پر سخت خوف طاری ہو گیا اور وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے، ”آخر یہ کون ہے؟ ہَوا اور جھیل بھی اُس کا حکم مانتی ہیں۔“

دوسروں تک پہنچائیں
پڑھیں مرقس 4

مرقس 10:4-41 کِتابِ مُقادّس (URD)

جب وہ اکیلا رہ گیا تو اُس کے ساتِھیوں نے اُن بارہ سمیت اُس سے اِن تمثِیلوں کی بابت پُوچھا۔ اُس نے اُن سے کہا کہ تُم کو خُدا کی بادشاہی کا بھید دِیا گیا ہے مگر اُن کے لِئے جو باہر ہیں سب باتیں تمثِیلوں میں ہوتی ہیں۔ تاکہ وہ دیکھتے ہُوئے دیکھیں اور معلُوم نہ کریں اور سُنتے ہُوئے سُنیں اور نہ سمجھیں۔ اَیسا نہ ہو کہ وہ رجُوع لائیں اور مُعافی پائیں۔ پِھر اُس نے اُن سے کہا کیا تُم یہ تمثِیل نہیں سمجھے؟ پِھر سب تمثِیلوں کو کیوں کر سمجھو گے؟ بونے والا کلام بوتا ہے۔ جو راہ کے کنارے ہیں جہاں کلام بویا جاتا ہے یہ وہ ہیں کہ جب اُنہوں نے سُنا تو شَیطان فی الفَور آ کر اُس کلام کو جو اُن میں بویا گیا تھا اُٹھا لے جاتا ہے۔ اور اِسی طرح جو پتّھرِیلی زمِین میں بوئے گئے یہ وہ ہیں جو کلام کو سُن کر فی الفَور خُوشی سے قبُول کر لیتے ہیں۔ اور اپنے اندر جڑ نہیں رکھتے بلکہ چند روزہ ہیں۔ پِھر جب کلام کے سبب سے مُصِیبت یا ظُلم برپا ہوتا ہے تو فی الفَور ٹھوکر کھاتے ہیں۔ اور جو جھاڑِیوں میں بوئے گئے وہ اَور ہیں۔ یہ وہ ہیں جِنہوں نے کلام سُنا۔ اور دُنیا کی فِکر اور دَولت کا فریب اور اَور چِیزوں کا لالچ داخِل ہو کر کلام کو دبا دیتے ہیں اور وہ بے پَھل رہ جاتا ہے۔ اور جو اچّھی زمِین میں بوئے گئے یہ وہ ہیں جو کلام کو سُنتے اور قبُول کرتے اور پَھل لاتے ہیں۔ کوئی تِیس گُنا کوئی ساٹھ گُنا۔ کوئی سَو گُنا۔ اور اُس نے اُن سے کہا کیا چراغ اِس لِئے لاتے ہیں کہ پَیمانہ یا پلنگ کے نِیچے رکھّا جائے؟ کیا اِس لِئے نہیں کہ چراغ دان پر رکھّا جائے؟ کیونکہ کوئی چِیز چِھپی نہیں مگر اِس لِئے کہ ظاہِر ہو جائے اور پوشِیدہ نہیں ہُوئی مگر اِس لِئے کہ ظہُور میں آئے۔ اگر کِسی کے سُننے کے کان ہوں تو سُن لے۔ پِھر اُس نے اُن سے کہا خبردار رہو کہ کیا سُنتے ہو۔ جِس پَیمانہ سے تُم ناپتے ہو اُسی سے تُمہارے لِئے ناپا جائے گا اور تُم کو زِیادہ دِیا جائے گا۔ کیونکہ جِس کے پاس ہے اُسے دِیا جائے گا اور جِس کے پاس نہیں ہے اُس سے وہ بھی جو اُس کے پاس ہے لے لِیا جائے گا۔ اور اُس نے کہا خُدا کی بادشاہی اَیسی ہے جَیسے کوئی آدمی زمِین میں بِیج ڈالے۔ اور رات کو سوئے اور دِن کو جاگے اور وہ بِیج اِس طرح اُگے اور بڑھے کہ وہ نہ جانے۔ زمِین آپ سے آپ پَھل لاتی ہے پہلے پتّی۔ پِھر بالیں۔ پِھر بالوں میں تیّار دانے۔ پِھر جب اناج پک چُکا تو وہ فی الفَور درانتی لگاتا ہے کیونکہ کاٹنے کا وقت آ پُہنچا۔ پِھر اُس نے کہا کہ ہم خُدا کی بادشاہی کو کِس سے تشبِیہ دیں اور کِس تمثِیل میں اُسے بیان کریں؟ وہ رائی کے دانے کی مانِند ہے کہ جب زمِین میں بویا جاتا ہے تو زمِین کے سب بِیجوں سے چھوٹا ہوتا ہے۔ مگر جب بو دِیا گیا تو اُگ کر سب ترکارِیوں سے بڑا ہو جاتا ہے اور اَیسی بڑی ڈالِیاں نِکالتا ہے کہ ہوا کے پرِندے اُس کے سایہ میں بسیرا کر سکتے ہیں۔ اور وہ اُن کو اِس قِسم کی بُہت سی تمثِیلیں دے دے کر اُن کی سمجھ کے مُطابِق کلام سُناتا تھا۔ اور بے تمثِیل اُن سے کُچھ نہ کہتا تھا لیکن خَلوت میں اپنے خاص شاگِردوں سے سب باتوں کے معنی بیان کرتا تھا۔ اُسی دِن جب شام ہُوئی تو اُس نے اُن سے کہا آؤ پار چلیں۔ اور وہ بِھیڑ کو چھوڑ کر اُسے جِس حال میں وہ تھا کشتی پر ساتھ لے چلے اور اُس کے ساتھ اَور کشتِیاں بھی تِھیں۔ تب بڑی آندھی چلی اور لہریں کشتی پر یہاں تک آئِیں کہ کشتی پانی سے بھری جاتی تھی۔ اور وہ خُود پِیچھے کی طرف گدّی پر سو رہا تھا۔ پس اُنہوں نے اُسے جگا کر کہا اَے اُستاد کیا تُجھے فِکر نہیں کہ ہم ہلاک ہُوئے جاتے ہیں؟ اُس نے اُٹھ کر ہوا کو ڈانٹا اور پانی سے کہا ساکت ہو! تھم جا! پس ہوا بند ہو گئی اور بڑا امن ہو گیا۔ پِھر اُن سے کہا تُم کیوں ڈرتے ہو؟ اب تک اِیمان نہیں رکھتے؟ اور وہ نِہایت ڈر گئے اور آپس میں کہنے لگے یہ کَون ہے کہ ہوا اور پانی بھی اُس کا حُکم مانتے ہیں؟

دوسروں تک پہنچائیں
پڑھیں مرقس 4