مرقس 10:4-20
مرقس 10:4-20 اُردو ہم عصر ترجُمہ (UCV)
جَب وہ تنہائی میں تھے، حُضُور عیسیٰ کے بَارہ شاگردوں اَور دُوسرے ساتھیوں نے آپ سے اِن تمثیلوں کے بارے میں پُوچھا۔ آپ نے اُن سے فرمایا، ”تُمہیں تو خُدا کی بادشاہی کے رازوں کو سمجھنے کی قابِلیّت دی گئی ہے۔ لیکن باہر وَالوں کے لیٔے ساری باتیں تمثیلوں میں بَیان کی جاتی ہیں، لہٰذا، ” ’وہ دیکھتے ہویٔے بھی، کُچھ نہیں دیکھتے؛ اَور سُنتے ہوئے بھی کبھی کُچھ نہیں سمجھتے؛ اَیسا نہ ہو کہ وہ تَوبہ کریں اَور گُناہوں کی مُعافی حاصل کر لیں!‘“ پھر حُضُور عیسیٰ نے اُن سے کہا، ”اگر تُم یہ تمثیل نہیں سمجھے تو باقی سَب تمثیلیں؟ کیسے سمجھوگے؟ بونے والا خُدا کے کلام کا بیج بوتا ہے۔ کُچھ لوگ جنہیں کلام سُنایا جاتا ہے راہ کے کنارے والے ہیں۔ جُوں ہی کلام کا بیج بویا جاتا ہے، شیطان آتا ہے اَور اُن کے دلوں سے وہ کلام نکال لے جاتا ہے۔ اِسی طرح، وہ لوگ پتھریلی جگہوں پر بوئے ہویٔے بیجوں کی طرح ہیں، وہ خُدا کے کلام کو سُنتے ہی خُوشی کے ساتھ سے قبُول کرلیتے ہیں۔ مگر وہ کلام اُن میں جڑ نہیں پکڑ پاتا، چنانچہ وہ کُچھ دِنوں تک ہی قائِم رہتے ہیں۔ اَور جَب اُن پر اِس کلام کی وجہ سے مُصیبت یااِیذا برپا ہوتی ہے تو وہ فوراً گِر جاتے ہیں۔ اَور دیگر، جھاڑیوں میں گِرنے والے بیج سے مُراد وہ لوگ ہیں، جو کلام کو سُنتے تو ہیں؛ لیکن اِس دُنیا کی فکریں، دولت کا فریب اَور دُوسری چیزوں کا لالچ آڑے آکر اِس کلام کو دبا دیتاہے، اَور وہ بے نتیجہ ہو جاتا ہے۔ جو لوگ، اُس اَچھّی زمین کی طرح ہیں جہاں بیج بویا جاتا ہے، وہ کلام کو سُنتے ہیں، قبُول کرتے ہیں، اَور پھل لاتے ہیں، بعض تیس گُنا، بعض ساٹھ گُنا، اَور بعض سَو گُنا۔“
مرقس 10:4-20 ہولی بائبل کا اردو جیو ورژن (URDGVU)
جب وہ اکیلا تھا تو جو لوگ اُس کے ارد گرد جمع تھے اُنہوں نے بارہ شاگردوں سمیت اُس سے پوچھا کہ اِس تمثیل کا کیا مطلب ہے؟ اُس نے جواب دیا، ”تم کو تو اللہ کی بادشاہی کا بھید سمجھنے کی لیاقت دی گئی ہے۔ لیکن مَیں اِس دائرے سے باہر کے لوگوں کو ہر بات سمجھانے کے لئے تمثیلیں استعمال کرتا ہوں تاکہ پاک کلام پورا ہو جائے کہ ’وہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے مگر کچھ نہیں جانیں گے، وہ اپنے کانوں سے سنیں گے مگر کچھ نہیں سمجھیں گے، ایسا نہ ہو کہ وہ میری طرف رجوع کریں اور اُنہیں معاف کر دیا جائے‘۔“ پھر عیسیٰ نے اُن سے کہا، ”کیا تم یہ تمثیل نہیں سمجھتے؟ تو پھر باقی تمام تمثیلیں کس طرح سمجھ پاؤ گے؟ بیج بونے والا اللہ کا کلام بو دیتا ہے۔ راستے پر گرنے والے دانے وہ لوگ ہیں جو کلام کو سنتے تو ہیں، لیکن پھر ابلیس فوراً آ کر وہ کلام چھین لیتا ہے جو اُن میں بویا گیا ہے۔ پتھریلی زمین پر گرنے والے دانے وہ لوگ ہیں جو کلام سنتے ہی اُسے خوشی سے قبول تو کر لیتے ہیں، لیکن وہ جڑ نہیں پکڑتے اور اِس لئے زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتے۔ جوں ہی وہ کلام پر ایمان لانے کے باعث کسی مصیبت یا ایذا رسانی سے دوچار ہو جائیں، تو وہ برگشتہ ہو جاتے ہیں۔ خود رَو کانٹےدار پودوں کے درمیان گرے ہوئے دانے وہ لوگ ہیں جو کلام سنتے تو ہیں، لیکن پھر روزمرہ کی پریشانیاں، دولت کا فریب اور دیگر چیزوں کا لالچ کلام کو پھلنے پھولنے نہیں دیتے۔ نتیجے میں وہ پھل لانے تک نہیں پہنچتا۔ اِس کے مقابلے میں زرخیز زمین میں گرے ہوئے دانے وہ لوگ ہیں جو کلام سن کر اُسے قبول کرتے اور بڑھتے بڑھتے تیس گُنا، ساٹھ گُنا بلکہ سَو گُنا تک پھل لاتے ہیں۔“
مرقس 10:4-20 کِتابِ مُقادّس (URD)
جب وہ اکیلا رہ گیا تو اُس کے ساتِھیوں نے اُن بارہ سمیت اُس سے اِن تمثِیلوں کی بابت پُوچھا۔ اُس نے اُن سے کہا کہ تُم کو خُدا کی بادشاہی کا بھید دِیا گیا ہے مگر اُن کے لِئے جو باہر ہیں سب باتیں تمثِیلوں میں ہوتی ہیں۔ تاکہ وہ دیکھتے ہُوئے دیکھیں اور معلُوم نہ کریں اور سُنتے ہُوئے سُنیں اور نہ سمجھیں۔ اَیسا نہ ہو کہ وہ رجُوع لائیں اور مُعافی پائیں۔ پِھر اُس نے اُن سے کہا کیا تُم یہ تمثِیل نہیں سمجھے؟ پِھر سب تمثِیلوں کو کیوں کر سمجھو گے؟ بونے والا کلام بوتا ہے۔ جو راہ کے کنارے ہیں جہاں کلام بویا جاتا ہے یہ وہ ہیں کہ جب اُنہوں نے سُنا تو شَیطان فی الفَور آ کر اُس کلام کو جو اُن میں بویا گیا تھا اُٹھا لے جاتا ہے۔ اور اِسی طرح جو پتّھرِیلی زمِین میں بوئے گئے یہ وہ ہیں جو کلام کو سُن کر فی الفَور خُوشی سے قبُول کر لیتے ہیں۔ اور اپنے اندر جڑ نہیں رکھتے بلکہ چند روزہ ہیں۔ پِھر جب کلام کے سبب سے مُصِیبت یا ظُلم برپا ہوتا ہے تو فی الفَور ٹھوکر کھاتے ہیں۔ اور جو جھاڑِیوں میں بوئے گئے وہ اَور ہیں۔ یہ وہ ہیں جِنہوں نے کلام سُنا۔ اور دُنیا کی فِکر اور دَولت کا فریب اور اَور چِیزوں کا لالچ داخِل ہو کر کلام کو دبا دیتے ہیں اور وہ بے پَھل رہ جاتا ہے۔ اور جو اچّھی زمِین میں بوئے گئے یہ وہ ہیں جو کلام کو سُنتے اور قبُول کرتے اور پَھل لاتے ہیں۔ کوئی تِیس گُنا کوئی ساٹھ گُنا۔ کوئی سَو گُنا۔