لوقا 1:8-18
لوقا 1:8-18 اُردو ہم عصر ترجُمہ (UCV)
اِس کے بعد، یُوں ہُوا کہ حُضُور عیسیٰ شہر بہ شہر اَور گاؤں بہ گاؤں پھر کر، خُدا کی بادشاہی کی خُوشخبری سُناتے اَور مُنادی کرتے رہے۔ حُضُور عیسیٰ بَارہ رسولوں کے ساتھ تھے، بعض عورتیں بھی ساتھ تھیں جنہوں نے بَدرُوحوں اَور بیماریوں سے شفا پائی تھی: مثلاً مریمؔ (مَگدلِینیؔ) جِس میں سے سات بَدرُوحیں نِکالی گئی تھیں؛ اَور یوأنّہؔ ہیرودیسؔ کے دیوان؛ خُوزہؔ کی بیوی تھی، اَور سوسنّؔاہ اَور کیٔی دُوسری خواتین جو اَپنے مال و اَسباب سے اُن کی خدمت کرتی تھیں۔ جَب اِتنا بڑا ہُجوم جمع ہو گیا اَور ہر شہر سے لوگ حُضُور عیسیٰ کے پاس چلے آتے تھے تو آپ نے یہ تمثیل سُنایٔی: ”ایک بیج بونے والا بیج بونے نکلا۔ بوتے وقت کُچھ بیج، راہ کے کنارے، گِرے اَور اُسے روندا گیا اَور چڑیوں نے آکر اُنہیں چُگ لیا۔ کُچھ چٹّان پر گِرے اَور اُگتے ہی سُوکھ گیٔے کیونکہ اُنہیں نَمی نہ مِلی۔ کُچھ جھاڑیوں میں گِرے اَور جھاڑیوں کے ساتھ بڑھے لیکن جھاڑیوں نے پھیل کر اُنہیں بڑھنے سے روک دیا۔ اَور کُچھ اَچھّی زمین پر گِرے اَور اُگ گیٔے، اَور بڑھ کر سَو گُنا پھل لایٔے۔“ یہ باتیں کہہ کر آپ نے پُکارا، ”جِس کے پاس سُننے کے کان ہوں وہ سُن لے۔“ حُضُور عیسیٰ کے شاگردوں نے آپ سے پُوچھا کہ اِس تمثیل کا مطلب کیا ہے؟ آپ نے فرمایا، ”تُمہیں تو خُدا کی بادشاہی کے رازوں کو سمجھنے کی قابِلیّت دی گئی ہے، لیکن دُوسروں کو یہ باتیں تمثیلوں میں بَیان کی جاتی ہیں، کیونکہ، ” ’وہ دیکھتے ہوئے بھی کُچھ نہیں دیکھتے؛ اَور سُنتے ہوئے بھی کُچھ نہیں سمجھتے۔‘ ”اِس تمثیل کا مطلب یہ ہے: بیج خُدا کا کلام ہے۔ راہ کے کنارے والے وہ ہیں جو سُنتے تو ہیں لیکن شیطان آتا ہے اَور اُن کے دلوں سے کلام کو نکال لے جاتا ہے، اَیسا نہ ہو کہ وہ ایمان لائیں اَور نَجات پائیں۔ چٹّان پر کے وہ ہیں جو کلام کو سُن کر اُسے خُوشی سے قبُول کرتے ہیں لیکن کلام اُن میں جڑ نہیں پکڑتا۔ وہ کُچھ عرصہ تک تو اَپنے ایمان پر قائِم رہتے ہیں لیکن آزمائش کے وقت پَسپا ہو جاتے ہیں۔ اَور جھاڑیوں میں گِرنے والے بیج سے مُراد وہ لوگ ہیں جو کلام کو سُنتے تو ہیں لیکن رفتہ رفتہ زندگی کی فِکروں، دولت اَور عیش و عشرت میں پھنس جاتے ہیں اَور اُن کا پھل پک نہیں پاتا۔ اَچھّی زمین والے بیج سے مُراد وہ لوگ ہیں جو کلام کو سُن کر اُسے اَپنے عُمدہ اَور نیک دل میں، مضبُوطی سے سنبھالے رہتے ہیں، اَور صبر سے پھل لاتے ہیں۔ ”کویٔی شخص چراغ جَلا کر اُسے برتن سے نہیں چھپاتا اَور نہ ہی چارپائی کے نیچے رکھتا ہے لیکن چراغدان پر رکھتا ہے تاکہ اَندر آنے وَالوں کو اُس کی رَوشنی دکھائی دے۔ کیونکہ کویٔی چیز چھپی ہویٔی نہیں جو ظاہر نہ کی جائے گی اَور نہ ہی کویٔی اَیسا راز ہے اُس کا پردہ فاش نہ کیا جائے گا۔ لہٰذا خبردار رہو کہ تُم کس طرح سُنتے۔ کیونکہ جِس کے پاس ہے اُسے اَور دیا جائے گا؛ جِس کے پاس نہیں ہے، لیکن وہ سمجھتا ہے کہ ہے اُس سے وہ بھی لے لیا جائے گا۔“
لوقا 1:8-18 ہولی بائبل کا اردو جیو ورژن (URDGVU)
اِس کے کچھ دیر بعد عیسیٰ مختلف شہروں اور دیہاتوں میں سے گزر کر سفر کرنے لگا۔ ہر جگہ اُس نے اللہ کی بادشاہی کے بارے میں خوش خبری سنائی۔ اُس کے بارہ شاگرد اُس کے ساتھ تھے، نیز کچھ خواتیں بھی جنہیں اُس نے بدروحوں سے رِہائی اور بیماریوں سے شفا دی تھی۔ اِن میں سے ایک مریم تھی جو مگدلینی کہلاتی تھی جس میں سے سات بدروحیں نکالی گئی تھیں۔ پھر یُوأنّہ جو خوزہ کی بیوی تھی (خوزہ ہیرودیس بادشاہ کا ایک افسر تھا)۔ سوسناہ اور دیگر کئی خواتین بھی تھیں جو اپنے مالی وسائل سے اُن کی خدمت کرتی تھیں۔ ایک دن عیسیٰ نے ایک بڑے ہجوم کو ایک تمثیل سنائی۔ لوگ مختلف شہروں سے اُسے سننے کے لئے جمع ہو گئے تھے۔ ”ایک کسان بیج بونے کے لئے نکلا۔ جب بیج اِدھر اُدھر بکھر گیا تو کچھ دانے راستے پر گرے۔ وہاں اُنہیں پاؤں تلے کچلا گیا اور پرندوں نے اُنہیں چگ لیا۔ کچھ پتھریلی زمین پر گرے۔ وہاں وہ اُگنے تو لگے، لیکن نمی کی کمی تھی، اِس لئے پودے کچھ دیر کے بعد سوکھ گئے۔ کچھ دانے خود رَو کانٹےدار پودوں کے درمیان بھی گرے۔ وہاں وہ اُگنے تو لگے، لیکن خود رَو پودوں نے ساتھ ساتھ بڑھ کر اُنہیں پھلنے پھولنے کی جگہ نہ دی۔ چنانچہ وہ بھی ختم ہو گئے۔ لیکن ایسے دانے بھی تھے جو زرخیز زمین پر گرے۔ وہاں وہ اُگ سکے اور جب فصل پک گئی تو سَو گُنا زیادہ پھل پیدا ہوا۔“ یہ کہہ کر عیسیٰ پکار اُٹھا، ”جو سن سکتا ہے وہ سن لے!“ اُس کے شاگردوں نے اُس سے پوچھا کہ اِس تمثیل کا کیا مطلب ہے؟ جواب میں اُس نے کہا، ”تم کو تو اللہ کی بادشاہی کے بھید سمجھنے کی لیاقت دی گئی ہے۔ لیکن مَیں دوسروں کو سمجھانے کے لئے تمثیلیں استعمال کرتا ہوں تاکہ پاک کلام پورا ہو جائے کہ ’وہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے مگر کچھ نہیں جانیں گے، وہ اپنے کانوں سے سنیں گے مگر کچھ نہیں سمجھیں گے۔‘ تمثیل کا مطلب یہ ہے: بیج سے مراد اللہ کا کلام ہے۔ راہ پر گرے ہوئے دانے وہ لوگ ہیں جو کلام سنتے تو ہیں، لیکن پھر ابلیس آ کر اُسے اُن کے دلوں سے چھین لیتا ہے، ایسا نہ ہو کہ وہ ایمان لا کر نجات پائیں۔ پتھریلی زمین پر گرے ہوئے دانے وہ لوگ ہیں جو کلام سن کر اُسے خوشی سے قبول تو کر لیتے ہیں، لیکن جڑ نہیں پکڑتے۔ نتیجے میں اگرچہ وہ کچھ دیر کے لئے ایمان رکھتے ہیں توبھی جب کسی آزمائش کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ برگشتہ ہو جاتے ہیں۔ خود رَو کانٹےدار پودوں کے درمیان گرے ہوئے دانے وہ لوگ ہیں جو سنتے تو ہیں، لیکن جب وہ چلے جاتے ہیں تو روزمرہ کی پریشانیاں، دولت اور زندگی کی عیش و عشرت اُنہیں پھلنے پھولنے نہیں دیتی۔ نتیجے میں وہ پھل لانے تک نہیں پہنچتے۔ اِس کے مقابلے میں زرخیز زمین میں گرے ہوئے دانے وہ لوگ ہیں جن کا دل دیانت دار اور اچھا ہے۔ جب وہ کلام سنتے ہیں تو وہ اُسے اپناتے اور ثابت قدمی سے ترقی کرتے کرتے پھل لاتے ہیں۔ جب کوئی چراغ جلاتا ہے تو وہ اُسے کسی برتن یا چارپائی کے نیچے نہیں رکھتا، بلکہ اُسے شمع دان پر رکھ دیتا ہے تاکہ اُس کی روشنی اندر آنے والوں کو نظر آئے۔ جو کچھ بھی اِس وقت پوشیدہ ہے وہ آخر میں ظاہر ہو جائے گا، اور جو کچھ بھی چھپا ہوا ہے وہ معلوم ہو جائے گا اور روشنی میں لایا جائے گا۔ چنانچہ اِس پر دھیان دو کہ تم کس طرح سنتے ہو۔ کیونکہ جس کے پاس کچھ ہے اُسے اَور دیا جائے گا، جبکہ جس کے پاس کچھ نہیں ہے اُس سے وہ بھی چھین لیا جائے گا جس کے بارے میں وہ خیال کرتا ہے کہ اُس کا ہے۔“
لوقا 1:8-18 کِتابِ مُقادّس (URD)
تھوڑے عرصہ کے بعد یُوں ہُؤا کہ وہ مُنادی کرتا اور خُدا کی بادشاہی کی خُوشخبری سُناتا ہُؤا شہر شہر اور گاؤں گاؤں پِھرنے لگا اور وہ بارہ اُس کے ساتھ تھے۔ اور بعض عَورتیں جِنہوں نے بُری رُوحوں اور بِیمارِیوں سے شِفا پائی تھی یعنی مریمؔ جو مگدلینی کہلاتی تھی جِس میں سے سات بدرُوحیں نِکلی تِھیں۔ اور یُوأنہ ہیرودؔیس کے دِیوان خُوزؔہ کی بِیوی اور سُوسنّاؔہ اور بُہتیری اَور عَورتیں بھی تِھیں جو اپنے مال سے اُن کی خِدمت کرتی تِھیں۔ پِھر جب بڑی بِھیڑ جمع ہُوئی اور ہر شہر کے لوگ اُس کے پاس چلے آتے تھے اُس نے تمثِیل میں کہا کہ ایک بونے والا اپنا بِیج بونے نِکلا اور بوتے وقت کُچھ راہ کے کنارے گِرا اور رَوندا گیا اور ہوا کے پرِندوں نے اُسے چُگ لِیا۔ اور کُچھ چٹان پر گِرا اور اُگ کر سُوکھ گیا اِس لِئے کہ اُس کو تَری نہ پُہنچی۔ اور کُچھ جھاڑِیوں میں گِرا اور جھاڑِیوں نے ساتھ ساتھ بڑھ کر اُسے دبا لِیا۔ اور کُچھ اچھّی زمِین میں گِرا اور اُگ کر سَو گُنا پَھل لایا۔ یہ کہہ کر اُس نے پُکارا۔ جِس کے سُننے کے کان ہوں وہ سُن لے! اُس کے شاگِردوں نے اُس سے پُوچھا کہ یہ تمثِیل کیا ہے؟ اُس نے کہا تُم کو خُدا کی بادشاہی کے بھیدوں کی سمجھ دی گئی ہے مگر اَوروں کو تمثِیلوں میں سُنایا جاتا ہے تاکہ دیکھتے ہُوئے نہ دیکھیں اور سُنتے ہُوئے نہ سمجھیں۔ وہ تمثِیل یہ ہے کہ بِیج خُدا کا کلام ہے۔ راہ کے کنارے کے وہ ہیں جِنہوں نے سُنا۔ پِھر اِبلِیس آ کر کلام کو اُن کے دِل سے چِھین لے جاتا ہے۔ اَیسا نہ ہو کہ اِیمان لا کر نجات پائیں۔ اور چٹان پر کے وہ ہیں جو سُن کر کلام کو خُوشی سے قبُول کر لیتے ہیں لیکن جڑ نہیں رکھتے مگر کُچھ عرصہ تک اِیمان رکھ کر آزمایش کے وقت پِھر جاتے ہیں۔ اور جو جھاڑِیوں میں پڑا اُس سے وہ لوگ مُراد ہیں جِنہوں نے سُنا لیکن ہوتے ہوتے اِس زِندگی کی فِکروں اور دَولت اور عَیش و عِشرت میں پھنس جاتے ہیں اور اُن کا پَھل پَکتا نہیں۔ مگر اچھّی زمِین کے وہ ہیں جو کلام کو سُن کر عُمدہ اور نیک دِل میں سنبھالے رہتے اور صبر سے پَھل لاتے ہیں۔ کوئی شخص چراغ جلا کر برتن سے نہیں چِھپاتا نہ پلنگ کے نِیچے رکھتا ہے بلکہ چراغ دان پر رکھتا ہے تاکہ اندر آنے والوں کو رَوشنی دِکھائی دے۔ کیونکہ کوئی چِیز چُھپی نہیں جو ظاہِر نہ ہو جائے گی اور نہ کوئی اَیسی پوشِیدہ بات ہے جو معلُوم نہ ہو گی اور ظہُور میں نہ آئے گی۔ پس خبردار رہو کہ تُم کِس طرح سُنتے ہو کیونکہ جِس کے پاس ہے اُسے دِیا جائے گا اور جِس کے پاس نہیں ہے اُس سے وہ بھی لے لِیا جائے گا جو اپنا سمجھتا ہے۔