عبرانیوں 1:11-15
عبرانیوں 1:11-15 کِتابِ مُقادّس (URD)
اب اِیمان اُمّید کی ہُوئی چِیزوں کا اِعتماد اور اَن دیکھی چِیزوں کا ثبُوت ہے۔ کیونکہ اُسی کی بابت بزُرگوں کے حق میں اچھّی گواہی دی گئی۔ اِیمان ہی سے ہم معلُوم کرتے ہیں کہ عالَم خُدا کے کہنے سے بنے ہیں۔ یہ نہیں کہ جو کُچھ نظر آتا ہے ظاہِری چِیزوں سے بنا ہو۔ اِیمان ہی سے ہابِل نے قائِنؔ سے اَفضل قُربانی خُدا کے لِئے گُذرانی اور اُسی کے سبب سے اُس کے راست باز ہونے کی گواہی دی گئی کیونکہ خُدا نے اُس کی نذروں کی بابت گواہی دی اور اگرچہ وہ مَر گیا ہے تَو بھی اُسی کے وسِیلہ سے اب تک کلام کرتا ہے۔ اِیمان ہی سے حنُوؔک اُٹھا لِیا گیا تاکہ مَوت کو نہ دیکھے اور چُونکہ خُدا نے اُسے اُٹھا لِیا تھا اِس لِئے اُس کا پتہ نہ مِلا کیونکہ اُٹھائے جانے سے پیشتر اُس کے حق میں یہ گواہی دی گئی تھی کہ یہ خُدا کو پسند آیا ہے۔ اور بغَیر اِیمان کے اُس کو پسند آنا نامُمکِن ہے۔ اِس لِئے کہ خُدا کے پاس آنے والے کو اِیمان لانا چاہئے کہ وہ مَوجُود ہے اور اپنے طالِبوں کو بدلہ دیتا ہے۔ اِیمان ہی کے سبب سے نُوح نے اُن چِیزوں کی بابت جو اُس وقت تک نظر نہ آتی تِھیں ہدایت پا کر خُدا کے خَوف سے اپنے گھرانے کے بچاؤ کے لِئے کشتی بنائی جِس سے اُس نے دُنیا کو مُجرِم ٹھہرایا اور اُس راست بازی کا وارِث ہُؤا جو اِیمان سے ہے۔ اِیمان ہی کے سبب سے ابرہامؔ جب بُلایا گیا تو حُکم مان کر اُس جگہ چلا گیا جِسے مِیراث میں لینے والا تھا اور اگرچہ جانتا نہ تھا کہ مَیں کہاں جاتا ہُوں تَو بھی روانہ ہو گیا۔ اِیمان ہی سے اُس نے مُلکِ مَوعُود میں اِس طرح مُسافِرانہ طَور پر بُود و باش کی کہ گویا غَیر مُلک ہے اور اِضحاقؔ اور یعقُوبؔ سمیت جو اُس کے ساتھ اُسی وعدہ کے وارِث تھے خَیموں میں سکُونت کی۔ کیونکہ وہ اُس پائیدار شہر کا اُمّیدوار تھا جِس کا مِعمار اور بنانے والا خُدا ہے۔ اِیمان ہی سے سارؔہ نے بھی سِنِّ یاس کے بعد حامِلہ ہونے کی طاقت پائی اِس لِئے کہ اُس نے وعدہ کرنے والے کو سچّا جانا۔ پس ایک شخص سے جو مُردہ سا تھا آسمان کے سِتاروں کے برابر کثِیر اور سمُندر کے کنارے کی ریت کے برابر بے شُمار اَولاد پَیدا ہُوئی۔ یہ سب اِیمان کی حالت میں مَرے اور وعدہ کی ہُوئی چِیزیں نہ پائیں مگر دُور ہی سے اُنہیں دیکھ کر خُوش ہُوئے اور اِقرار کِیا کہ ہم زمِین پر پردیسی اور مُسافِر ہیں۔ جو اَیسی باتیں کہتے ہیں وہ ظاہِر کرتے ہیں کہ ہم اپنے وطن کی تلاش میں ہیں۔ اور جِس مُلک سے وہ نِکل آئے تھے اگر اُس کا خیال کرتے تو اُنہیں واپس جانے کا مَوقع تھا۔
عبرانیوں 1:11-15 اُردو ہم عصر ترجُمہ (UCV)
اَب ایمان اُمّید کی ہُوئی چیزوں کا اِعتماد اَور نادیدہ چیزوں کی مَوجُودگی کا ثبوت ہے۔ قدیم زمانے کے بُزرگوں کے ایمان کی وجہ سے ہی اُن کے حق میں عُمدہ گواہی دی گئی ہے۔ ایمان ہی سے ہمیں مَعلُوم ہوتاہے کہ ساری کائِنات کی خُدا کے کلام سے خلق ہوئی۔ لیکن یہ نہیں کہ سَب کچھ جو نظر آتا ہے اُس کی پیدائش نظر آنے والی چیزوں سے ہویٔی ہو۔ ایمان ہی سے حضرت ہابِلؔ نے قائِنؔ سے افضل قُربانی پیش کی جِس کی بِنا پر اُس کی نذر قبُول کرکے خُدا نے اُس کے راستباز ہونے کی گواہی دی اَور اگرچہ حضرت ہابِلؔ کی موت ہو چُکی ہے تَو بھی وہ ایمان ہی کے وسیلہ سے اَب تک کلام کرتے ہیں۔ ایمان ہی سے حضرت حنوکؔ آسمان پر زندہ اُٹھا لیٔے گیٔے اَور موت کا ذاتی مشاہدہ نہ کیا، ”اَور وہ نظروں سے غائب ہو گئے کیونکہ خُدا نے اُنہیں آسمان پر اُٹھالیا تھا۔“ حضرت حنوکؔ کے اُٹھائے جانے سے پہلے اُن کے حق میں گواہی دی گئی کہ اُنہُوں نے خُدا کو خُوش کیا تھا۔ کیونکہ ایمان کے بغیر خُدا کو خُوش کرنا ناممکن ہے، پس واجِب ہے کہ خُدا کے پاس آنے والوں کو ایمان لانا چاہئے کہ خُدا مَوجُود ہے اَور وہ اَپنے طالبِوں کو اجر دیتاہے۔ ایمان ہی سے حضرت نُوحؔ نے اُن چیزوں کی بابت جو اُس وقت تک نظر نہ آتی تھیں، ہدایت پا کر خُدا کے خوف سے اَپنے سارے خاندان کو بچانے کے واسطے لکڑی کا ایک پانی کا جہاز بنایا۔ اَور اَپنے ایمان کے ذریعہ سے حضرت نُوحؔ نے دُنیا کو مُجرم ٹھہرایا اَور اُس راستبازی کا وارِث بنے جو ایمان سے حاصل ہوتی ہے۔ ایمان ہی سے جَب حضرت اِبراہیمؔ بُلائے گیٔے تو وہ خُدا کا حُکم مان کر اُس جگہ چَلے گیٔے جو بعد میں اُنہیں مِیراث کے طور پر مِلنے والی تھی حالانکہ وہ جانتے بھی نہ تھے کہ کہاں جا رہے ہیں۔ ایمان ہی کے سبب سے وہ وعدہ کیٔے ہویٔے اُس مُلک میں ایک اجنبی کی مانند رہنے لگے؛ حضرت اِبراہیمؔ خیموں میں رہتے تھے اَور اِسی طرح حضرت اِضحاقؔ اَور یعقُوب نے بھی زندگی گُزاری، جو حضرت اِبراہیمؔ کے ساتھ اُسی وعدہ کے وارث تھے۔ کیونکہ حضرت اِبراہیمؔ اُس اَبدی بُنیاد والے شہر کے اِنتظار میں تھے، جِس کا خالق اَور تعمیر کرنے والا خُدا ہے۔ ایمان ہی سے سارہؔ نے حاملہ ہونے اَور بچّہ پیدا کرنے کی قُوّت پائی حالانکہ وہ عمر رسیدہ تھیں اَور بچّہ پیدا کرنے کے قابِل نہیں تھیں، کیونکہ سارہؔ کو یقین تھا کہ وعدہ کرنے والا خُدا وفادار ہے۔ پس ایک اَیسے شخص سے جو مُردہ سا تھا، تعداد میں آسمان کے سِتاروں اَور سمُندر کی ریت کے مانند بے شُمار اَولاد پیدا ہُوئی۔ یہ سَب لوگ ایمان رکھتے ہویٔے مَر گیٔے اَور وعدہ کی ہُوئی چیزیں نہ پائیں۔ مگر دُور ہی سے اُنہیں دیکھ کر خُوش ہوکر اُس کا اِستِقبال کیا اَور اقرار کرتے رہے کہ ہم زمین پر صِرف مُسافر اَور پردیسی ہیں۔ جو اَیسی باتیں کہتے ہیں وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم اَب تک اَپنے وطن کی تلاش میں ہیں۔ اگر وہ اَپنے چھوڑے ہویٔے مُلک کا خیال کرتے رہتے تو اُنہیں واپس لَوٹ جانے کا بھی موقع تھا۔
عبرانیوں 1:11-15 ہولی بائبل کا اردو جیو ورژن (URDGVU)
ایمان کیا ہے؟ یہ کہ ہم اُس میں قائم رہیں جس پر ہم اُمید رکھتے ہیں اور کہ ہم اُس کا یقین رکھیں جو ہم نہیں دیکھ سکتے۔ ایمان ہی سے پرانے زمانوں کے لوگوں کو اللہ کی قبولیت حاصل ہوئی۔ ایمان کے ذریعے ہم جان لیتے ہیں کہ کائنات کو اللہ کے کلام سے خلق کیا گیا، کہ جو کچھ ہم دیکھ سکتے ہیں نظر آنے والی چیزوں سے نہیں بنا۔ یہ ایمان کا کام تھا کہ ہابیل نے اللہ کو ایک ایسی قربانی پیش کی جو قابیل کی قربانی سے بہتر تھی۔ اِس ایمان کی بنا پر اللہ نے اُسے راست باز ٹھہرا کر اُس کی اچھی گواہی دی، جب اُس نے اُس کی قربانیوں کو قبول کیا۔ اور ایمان کے ذریعے وہ اب تک بولتا رہتا ہے حالانکہ وہ مُردہ ہے۔ یہ ایمان کا کام تھا کہ حنوک نہ مرا بلکہ زندہ حالت میں آسمان پر اُٹھایا گیا۔ کوئی بھی اُسے ڈھونڈ کر پا نہ سکا کیونکہ اللہ اُسے آسمان پر اُٹھا لے گیا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ اُٹھائے جانے سے پہلے اُسے یہ گواہی ملی کہ وہ اللہ کو پسند آیا۔ اور ایمان رکھے بغیر ہم اللہ کو پسند نہیں آ سکتے۔ کیونکہ لازم ہے کہ اللہ کے حضور آنے والا ایمان رکھے کہ وہ ہے اور کہ وہ اُنہیں اجر دیتا ہے جو اُس کے طالب ہیں۔ یہ ایمان کا کام تھا کہ نوح نے اللہ کی سنی جب اُس نے اُسے آنے والی باتوں کے بارے میں آگاہ کیا، ایسی باتوں کے بارے میں جو ابھی دیکھنے میں نہیں آئی تھیں۔ نوح نے خدا کا خوف مان کر ایک کشتی بنائی تاکہ اُس کا خاندان بچ جائے۔ یوں اُس نے اپنے ایمان کے ذریعے دنیا کو مجرم قرار دیا اور اُس راست بازی کا وارث بن گیا جو ایمان سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ ایمان کا کام تھا کہ ابراہیم نے اللہ کی سنی جب اُس نے اُسے بُلا کر کہا کہ وہ ایک ایسے ملک میں جائے جو اُسے بعد میں میراث میں ملے گا۔ ہاں، وہ اپنے ملک کو چھوڑ کر روانہ ہوا، حالانکہ اُسے معلوم نہ تھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے۔ ایمان کے ذریعے وہ وعدہ کئے ہوئے ملک میں اجنبی کی حیثیت سے رہنے لگا۔ وہ خیموں میں رہتا تھا اور اِسی طرح اسحاق اور یعقوب بھی جو اُس کے ساتھ اُسی وعدے کے وارث تھے۔ کیونکہ ابراہیم اُس شہر کے انتظار میں تھا جس کی مضبوط بنیاد ہے اور جس کا نقش بنانے اور تعمیر کرنے والا خود اللہ ہے۔ یہ ایمان کا کام تھا کہ ابراہیم باپ بننے کے قابل ہو گیا، حالانکہ وہ بُڑھاپے کی وجہ سے باپ نہیں بن سکتا تھا۔ اِسی طرح سارہ بھی بچے جنم نہیں دے سکتی تھی۔ لیکن ابراہیم سمجھتا تھا کہ اللہ جس نے وعدہ کیا ہے وفادار ہے۔ گو ابراہیم تقریباً مر چکا تھا توبھی اُسی ایک شخص سے بےشمار اولاد نکلی، تعداد میں آسمان پر کے ستاروں اور ساحل پر کی ریت کے ذروں کے برابر۔ یہ تمام لوگ ایمان رکھتے رکھتے مر گئے۔ اُنہیں وہ کچھ نہ ملا جس کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اُنہوں نے اُسے صرف دُور ہی سے دیکھ کر خوش آمدید کہا۔ اور اُنہوں نے تسلیم کیا کہ ہم زمین پر صرف مہمان اور عارضی طور پر رہنے والے اجنبی ہیں۔ جو اِس قسم کی باتیں کرتے ہیں وہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم اب تک اپنے وطن کی تلاش میں ہیں۔ اگر اُن کے ذہن میں وہ ملک ہوتا جس سے وہ نکل آئے تھے تو وہ اب بھی واپس جا سکتے تھے۔