پَیدایش 1:37-36
پَیدایش 1:37-36 اُردو ہم عصر ترجُمہ (UCV)
یعقوب مُلکِ کنعانؔ میں یعنی اُس مُلک میں رہتے تھے۔ جہاں اُن کے باپ نے کچھ عرصہ گزارا تھا۔ یعقوب کی نَسل کا حال یہ ہے: یُوسیفؔ ایک سترہ سال کے نوجوان تھے جو اَپنے بھائیوں کے ساتھ جو اُن کے باپ کی بیویوں بِلہاہؔ اَور زِلفہؔ کے بیٹے تھے بھیڑ بکریاں، چُرایا کرتے تھے اَور اُن کی بدسلُوکیوں کی خبر باپ تک پہُنچایا کرتے تھے۔ اِسرائیل کو یُوسیفؔ اَپنے دُوسرے بیٹوں سے زِیادہ عزیز تھے کیونکہ وہ اُن کے بُڑھاپے کا بیٹا تھا اَور یعقوب نے یُوسیفؔ کے لیٔے مُختلف رنگوں والی ایک قبا بنائی تھی۔ یُوسیفؔ کے بھائیوں نے جَب یہ دیکھا کہ اُن کے باپ یُوسیفؔ کو اُن سے زِیادہ مَحَبّت کرتے ہیں تو وہ یُوسیفؔ سے حَسد کرنے لگے اَور یُوسیفؔ کے ساتھ ڈھنگ سے بات بھی نہ کرتے تھے۔ یُوسیفؔ نے ایک خواب دیکھا اَور جَب اُنہُوں نے وہ خواب اَپنے بھائیوں کو بتایا تو وہ یُوسیفؔ سے اَور بھی زِیادہ نفرت کرنے لگے۔ یُوسیفؔ نے اَپنے بھائیوں سے کہا، ”ذرا اِس خواب کو تو سُنو جو مَیں نے دیکھاہے: ہم کھیت میں پُولے باندھ رہے تھے، اَچانک میرا پُولا کھڑا ہو گیا، اَور تمہارے پُولے میرے پُولے کے اِردگرد جمع ہو گئے اَور اُسے سَجدہ کرنے لگے۔“ اُن کے بھائیوں نے یُوسیفؔ سے کہا، ”تو کیا تُم ہمارے بادشاہ بننا چاہتے ہو؟ کیا تُم واقعی ہم پر حُکومت کروگے؟“ اَور وہ اُن کے خواب اَور اُن کی باتوں کی وجہ سے یُوسیفؔ سے اَور بھی زِیادہ نفرت کرنے لگے۔ تَب یُوسیفؔ نے ایک اَور خواب دیکھا، اَور اَپنے بھائیوں کو بتایا۔ یُوسیفؔ نے کہا، ”سُنو، اِس دفعہ مَیں نے خواب میں دیکھا؛ سُورج چاند اَور گیارہ سِتارے مُجھے سَجدہ کر رہے ہیں۔“ جَب یُوسیفؔ نے اِس خواب کا ذِکر اَپنے باپ اَور اَپنے بھائیوں سے کیا تو اُن کے باپ نے اُسے ڈانٹا اَور کہا، ”یہ خواب کیا ہے جو تُم نے دیکھاہے؟ کیا تمہاری ماں اَور مَیں اَور تمہارے بھایٔی سچ مُچ تمہارے سامنے زمین پر جھُکیں گے اَور تُمہیں سَجدہ کریں گے؟“ یُوسیفؔ کے بھایٔی اُن سے اَور بھی حَسد کرنے لگے۔ لیکن یُوسیفؔ کے باپ نے یہ بات اَپنے دِل میں رکھی۔ ایک دِن جَب یُوسیفؔ کے بھایٔی شِکیمؔ کے آس پاس اَپنے باپ کی بھیڑیں چرا رہے تھے۔ تو اِسرائیل نے یُوسیفؔ سے کہا، ”جَیسا کہ تُم جانتے ہو کہ تمہارے بھایٔی شِکیمؔ کے نزدیک بھیڑ بکریاں، چرا رہے ہیں، میں تُمہیں اُن کے پاس بھیجنا چاہتا ہُوں۔“ یُوسیفؔ نے جَواب دیا، ”بہت خُوب۔“ چنانچہ یعقوب نے یُوسیفؔ سے کہا، ”جا کر دیکھو تمہارے بھایٔی اَور سارے گلّے خیریت سے تو ہیں اَور پھر آکر مُجھے خبر دو۔“ تَب یعقوب نے یُوسیفؔ کو حِبرونؔ کی وادی سے رخصت کیا۔ جَب یُوسیفؔ شِکیمؔ پہُنچے، تو ایک شخص نے اُنہیں کھیتوں میں اِدھر اُدھر گھُومتے پایا اَور اُن سے پُوچھا، ”تُم کیا ڈھونڈ رہے ہو؟“ یُوسیفؔ نے جَواب دیا، ”میں اَپنے بھائیوں کو ڈھونڈ رہا ہُوں۔ کیا آپ مُجھے مہربانی کرکے بتا سکتے ہیں کہ وہ اَپنی بھیڑ بکریاں، کہاں چرا رہے ہیں؟“ اُس آدمی نے جَواب دیا، ”وہ یہاں سے چلے گیٔے، اَور مَیں نے اُنہیں یہ کہتے سُنا تھا، ’چلو، ہم دُتانؔ کی طرف نکل چلیں۔‘ “ چنانچہ یُوسیفؔ اَپنے بھائیوں کی تلاش میں روانہ ہویٔے اَور اُنہیں دُتانؔ کے پاس پایا۔ لیکن بھائیوں نے یُوسیفؔ کو دُور سے دیکھا، اَور اِس سے قبل کہ وہ اُن تک پہُنچتے اُنہُوں نے یُوسیفؔ کو قتل کرنے کا منصُوبہ بنا ڈالا۔ اَور اُنہُوں نے آپَس میں کہا، ”دیکھو وہ آ رہاہے خواب دیکھنے والا! آؤ، ہم اُسے قتل کر ڈالیں اَور کسی گڑھے میں ڈال دیں، اَور کہیں گے کہ کویٔی خُونخوار جانور اُسے کھا گیا؛ پھر ہم دیکھیں گے کہ اُس کے خوابوں کا اَنجام کیا ہوتاہے۔“ جَب رُوبِنؔ نے یہ سُنا تو اُس نے یُوسیفؔ کو اُن کے ہاتھوں سے بچانے کی کوشش کی۔ ”ہم یُوسیفؔ کو جان سے نہ ماریں،“ رُوبِنؔ نے کہا۔ ”بَلکہ اُس کا خُون بہانے کی بجائے اُسے بیابان کے کسی گڑھے میں ڈال دیں،“ تُم اُسے مارو مت۔ رُوبِنؔ نے یہ اِس لیٔے کہا کہ وہ اُسے اُن کے ہاتھ سے بچا کر اَپنے باپ کے پاس سلامت لے جانا چاہتا تھا۔ چنانچہ جَب یُوسیفؔ اَپنے بھائیوں کے پاس پہُنچے تو اُنہُوں نے یُوسیفؔ کی مُختلف رنگوں والی قبا کو جسے وہ پہنے ہویٔے تھے اُتار لیا، اَور یُوسیفؔ کو اُٹھاکر ایک گڑھے میں پھینک دیا، جو سُوکھا تھا؛ اُس میں ذرا بھی پانی نہ تھا۔ پھر جَب وہ کھانا کھانے بیٹھے تو اُنہُوں نے نظر اُٹھاکر دیکھا کہ اِشمعیلیوں کا ایک قافلہ گِلعادؔ سے آ رہاہے۔ اُن کے اُونٹ گرم مَسالوں روغن بلسان اَور مُر سے لدے ہویٔے تھے اَور وہ اُنہیں مِصر لے جا رہے تھے۔ یہُوداہؔ نے اَپنے بھائیوں سے کہا، ”اگر ہم اَپنے بھایٔی کو مار ڈالیں اَور اُس کے خُون کو چھُپا لیں تو کیا فائدہ ہوگا؟ کیوں نہ ہم اِسے اِشمعیلیوں کے ہاتھ بیچ ڈالیں۔ اُسے قتل نہ کریں؟ آخِرکار وہ ہمارا بھایٔی ہے اَور ہمارا ہی اَپنا گوشت اَور خُون ہے۔“ اُس کے بھائیوں نے اُس کی بات مان لی۔ چنانچہ جَب وہ مِدیانی سوداگر نزدیک آئے تو اُن کے بھائیوں نے یُوسیفؔ کو گڑھے میں سے کھینچ کر باہر نکالا، اَور یُوسیفؔ کو چاندی کے بیسں ثاقل کے عِوض اِشمعیلیوں کے ہاتھ بیچ ڈالا جو اُسے مِصر لے گیٔے۔ جَب رُوبِنؔ لَوٹ کر گڑھے پر پہُنچا، اَور دیکھا کہ یُوسیفؔ وہاں نہیں ہیں، تو اُس نے اَپنے کپڑے پھاڑ ڈالے۔ وہ لَوٹ کر اَپنے بھائیوں کے پاس گیا اَور کہنے لگا، ”لڑکا تو وہاں نہیں ہے! اَب مَیں کیا کروں؟“ تَب اُنہُوں نے ایک بکری کو ذبح کرکے یُوسیفؔ کی قبا کو اُس کے خُون میں تر کیا اَور اُس مُختلف رنگوں والی قبا کو لے کر اَپنے باپ کے پاس لَوٹے اَور کہنے لگے، ”ہمیں یہ قبا پڑا ہُوا مِلا؛ لہٰذا اُسے غور سے دیکھو کہ کہیں یہ تمہارے بیٹے کی قبا تو نہیں ہے؟“ یعقوب نے اُسے پہچان لیا اَور کہا، ”یہ تو میرے بیٹے کی قبا ہے۔ وہ کسی خُونخوار جانور کا لقمہ بَن گیا۔ سچ مُچ یُوسیفؔ پھاڑ ڈالا گیا۔“ چنانچہ تَب یعقوب نے اَپنے کپڑے پھاڑ ڈالے، اَور ٹاٹ پہن لیا اَور وہ کیٔی دِنوں تک اَپنے بیٹے کے لیٔے ماتم کرتے رہے۔ اَور اُن کے سَب بیٹے اَور بیٹیاں یعقوب کو تسلّی دیتے تھے لیکن یعقوب کو تسلّی نہ ہوتی تھی۔ وہ یہی کہتے تھے، ”نہیں، میں تو ماتم کرتا ہُوا ہی قبر میں پہُنچ جاؤں گا اَور اَپنے بیٹے سے جا ملوں گا۔“ چنانچہ یعقوب اَپنے بیٹے کے لیٔے آنسُو بہاتے رہے۔ اِس اَثنا میں مِدیانیوں نے یُوسیفؔ کو مِصر میں پُطیفؔار کے ہاتھ جو فَرعوہؔ کا ایک حاکم اَور پہرےداروں کا سردار تھا بیچ دیا۔
پَیدایش 1:37-36 ہولی بائبل کا اردو جیو ورژن (URDGVU)
یعقوب ملکِ کنعان میں رہتا تھا جہاں پہلے اُس کا باپ بھی پردیسی تھا۔ یہ یعقوب کے خاندان کا بیان ہے۔ اُس وقت یعقوب کا بیٹا یوسف 17 سال کا تھا۔ وہ اپنے بھائیوں یعنی بِلہاہ اور زِلفہ کے بیٹوں کے ساتھ بھیڑبکریوں کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ یوسف اپنے باپ کو اپنے بھائیوں کی بُری حرکتوں کی اطلاع دیا کرتا تھا۔ یعقوب یوسف کو اپنے تمام بیٹوں کی نسبت زیادہ پیار کرتا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ وہ تب پیدا ہوا جب باپ بوڑھا تھا۔ اِس لئے یعقوب نے اُس کے لئے ایک خاص رنگ دار لباس بنوایا۔ جب اُس کے بھائیوں نے دیکھا کہ ہمارا باپ یوسف کو ہم سے زیادہ پیار کرتا ہے تو وہ اُس سے نفرت کرنے لگے اور ادب سے اُس سے بات نہیں کرتے تھے۔ ایک رات یوسف نے خواب دیکھا۔ جب اُس نے اپنے بھائیوں کو خواب سنایا تو وہ اُس سے اَور بھی نفرت کرنے لگے۔ اُس نے کہا، ”سنو، مَیں نے خواب دیکھا۔ ہم سب کھیت میں پُولے باندھ رہے تھے کہ میرا پُولا کھڑا ہو گیا۔ آپ کے پُولے میرے پُولے کے ارد گرد جمع ہو کر اُس کے سامنے جھک گئے۔“ اُس کے بھائیوں نے کہا، ”اچھا، تُو بادشاہ بن کر ہم پر حکومت کرے گا؟“ اُس کے خوابوں اور اُس کی باتوں کے سبب سے اُن کی اُس سے نفرت مزید بڑھ گئی۔ کچھ دیر کے بعد یوسف نے ایک اَور خواب دیکھا۔ اُس نے اپنے بھائیوں سے کہا، ”مَیں نے ایک اَور خواب دیکھا ہے۔ اُس میں سورج، چاند اور گیارہ ستارے میرے سامنے جھک گئے۔“ اُس نے یہ خواب اپنے باپ کو بھی سنایا تو اُس نے اُسے ڈانٹا۔ اُس نے کہا، ”یہ کیسا خواب ہے جو تُو نے دیکھا! یہ کیسی بات ہے کہ مَیں، تیری ماں اور تیرے بھائی آ کر تیرے سامنے زمین تک جھک جائیں؟“ نتیجے میں اُس کے بھائی اُس سے بہت حسد کرنے لگے۔ لیکن اُس کے باپ نے دل میں یہ بات محفوظ رکھی۔ ایک دن جب یوسف کے بھائی اپنے باپ کے ریوڑ چَرانے کے لئے سِکم تک پہنچ گئے تھے تو یعقوب نے یوسف سے کہا، ”تیرے بھائی سِکم میں ریوڑوں کو چَرا رہے ہیں۔ آ، مَیں تجھے اُن کے پاس بھیج دیتا ہوں۔“ یوسف نے جواب دیا، ”ٹھیک ہے۔“ یعقوب نے کہا، ”جا کر معلوم کر کہ تیرے بھائی اور اُن کے ساتھ کے ریوڑ خیریت سے ہیں کہ نہیں۔ پھر واپس آ کر مجھے بتا دینا۔“ چنانچہ اُس کے باپ نے اُسے وادیٔ حبرون سے بھیج دیا، اور یوسف سِکم پہنچ گیا۔ وہاں وہ اِدھر اُدھر پھرتا رہا۔ آخرکار ایک آدمی اُس سے ملا اور پوچھا، ”آپ کیا ڈھونڈ رہے ہیں؟“ یوسف نے جواب دیا، ”مَیں اپنے بھائیوں کو تلاش کر رہا ہوں۔ مجھے بتائیں کہ وہ اپنے جانوروں کو کہاں چَرا رہے ہیں۔“ آدمی نے کہا، ”وہ یہاں سے چلے گئے ہیں۔ مَیں نے اُنہیں یہ کہتے سنا کہ آؤ، ہم دوتین جائیں۔“ یہ سن کر یوسف اپنے بھائیوں کے پیچھے دوتین چلا گیا۔ وہاں اُسے وہ مل گئے۔ جب یوسف ابھی دُور سے نظر آیا تو اُس کے بھائیوں نے اُس کے پہنچنے سے پہلے اُسے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اُنہوں نے کہا، ”دیکھو، خواب دیکھنے والا آ رہا ہے۔ آؤ، ہم اُسے مار ڈالیں اور اُس کی لاش کسی گڑھے میں پھینک دیں۔ ہم کہیں گے کہ کسی وحشی جانور نے اُسے پھاڑ کھایا ہے۔ پھر پتا چلے گا کہ اُس کے خوابوں کی کیا حقیقت ہے۔“ جب روبن نے اُن کی باتیں سنیں تو اُس نے یوسف کو بچانے کی کوشش کی۔ اُس نے کہا، ”نہیں، ہم اُسے قتل نہ کریں۔ اُس کا خون نہ کرنا۔ بےشک اُسے اِس گڑھے میں پھینک دیں جو ریگستان میں ہے، لیکن اُسے ہاتھ نہ لگائیں۔“ اُس نے یہ اِس لئے کہا کہ وہ اُسے بچا کر باپ کے پاس واپس پہنچانا چاہتا تھا۔ جوں ہی یوسف اپنے بھائیوں کے پاس پہنچا اُنہوں نے اُس کا رنگ دار لباس اُتار کر یوسف کو گڑھے میں پھینک دیا۔ گڑھا خالی تھا، اُس میں پانی نہیں تھا۔ پھر وہ روٹی کھانے کے لئے بیٹھ گئے۔ اچانک اسمٰعیلیوں کا ایک قافلہ نظر آیا۔ وہ جِلعاد سے مصر جا رہے تھے، اور اُن کے اونٹ قیمتی مسالوں یعنی لادن، بلسان اور مُر سے لدے ہوئے تھے۔ تب یہوداہ نے اپنے بھائیوں سے کہا، ”ہمیں کیا فائدہ ہے اگر اپنے بھائی کو قتل کر کے اُس کے خون کو چھپا دیں؟ آؤ، ہم اُسے اِن اسمٰعیلیوں کے ہاتھ فروخت کر دیں۔ پھر کوئی ضرورت نہیں ہو گی کہ ہم اُسے ہاتھ لگائیں۔ آخر وہ ہمارا بھائی ہے۔“ اُس کے بھائی راضی ہوئے۔ چنانچہ جب مِدیانی تاجر وہاں سے گزرے تو بھائیوں نے یوسف کو کھینچ کر گڑھے سے نکالا اور چاندی کے 20 سِکوں کے عوض بیچ ڈالا۔ اسمٰعیلی اُسے لے کر مصر چلے گئے۔ اُس وقت روبن موجود نہیں تھا۔ جب وہ گڑھے کے پاس واپس آیا تو یوسف اُس میں نہیں تھا۔ یہ دیکھ کر اُس نے پریشانی میں اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے۔ وہ اپنے بھائیوں کے پاس واپس گیا اور کہا، ”لڑکا نہیں ہے۔ اب مَیں کس طرح ابو کے پاس جاؤں؟“ تب اُنہوں نے بکرا ذبح کر کے یوسف کا لباس اُس کے خون میں ڈبویا، پھر رنگ دار لباس اِس خبر کے ساتھ اپنے باپ کو بھجوا دیاکہ ”ہمیں یہ ملا ہے۔ اِسے غور سے دیکھیں۔ یہ آپ کے بیٹے کا لباس تو نہیں؟“ یعقوب نے اُسے پہچان لیا اور کہا، ”بےشک اُسی کا ہے۔ کسی وحشی جانور نے اُسے پھاڑ کھایا ہے۔ یقیناً یوسف کو پھاڑ دیا گیا ہے۔“ یعقوب نے غم کے مارے اپنے کپڑے پھاڑے اور اپنی کمر سے ٹاٹ اوڑھ کر بڑی دیر تک اپنے بیٹے کے لئے ماتم کرتا رہا۔ اُس کے تمام بیٹے بیٹیاں اُسے تسلی دینے آئے، لیکن اُس نے تسلی پانے سے انکار کیا اور کہا، ”مَیں پاتال میں اُترتے ہوئے بھی اپنے بیٹے کے لئے ماتم کروں گا۔“ اِس حالت میں وہ اپنے بیٹے کے لئے روتا رہا۔ اِتنے میں مِدیانی مصر پہنچ کر یوسف کو بیچ چکے تھے۔ مصر کے بادشاہ فرعون کے ایک اعلیٰ افسر فوطی فار نے اُسے خرید لیا۔ فوطی فار بادشاہ کے محافظوں پر مقرر تھا۔
پَیدایش 1:37-36 کِتابِ مُقادّس (URD)
اور یعقُوبؔ مُلکِ کنعانؔ میں رہتا تھا جہاں اُس کا باپ مُسافِر کی طرح رہا تھا۔ یعقُوبؔ کی نسل کا حال یہ ہے کہ یُوسفؔ ستّرہ برس کی عُمر میں اپنے بھائِیوں کے ساتھ بھیڑ بکریاں چرایا کرتا تھا۔ یہ لڑکا اپنے باپ کی بِیویوں بِلہاہؔ اور زِلفہؔ کے بیٹوں کے ساتھ رہتا تھا اور وہ اُن کے بُرے کاموں کی خبر باپ تک پُہنچا دیتا تھا۔ اور اِسرائیل یُوسفؔ کو اپنے سب بیٹوں سے زِیادہ پیار کرتا تھا کیونکہ وہ اُس کے بُڑھاپے کا بیٹا تھا اور اُس نے اُسے ایک بُوقلمُون قبا بھی بنوا دی۔ اور اُس کے بھائِیوں نے دیکھا کہ اُن کا باپ اُس کے سب بھائِیوں سے زِیادہ اُسی کو پیار کرتا ہے۔ سو وہ اُس سے بُغض رکھنے لگے اور ٹِھیک طَور سے بات بھی نہیں کرتے تھے۔ اور یُوسفؔ نے ایک خواب دیکھا جِسے اُس نے اپنے بھائِیوں کو بتایا تو وہ اُس سے اَور بھی بُغض رکھنے لگے۔ اور اُس نے اُن سے کہا ذرا وہ خواب تو سُنو جو مَیں نے دیکھا ہے۔ ہم کھیت میں پُولے باندھتے تھے اور کیا دیکھتا ہُوں کہ میرا پُولا اُٹھا اور سِیدھا کھڑا ہو گیا اور تُمہارے پُولوں نے میرے پُولے کو چاروں طرف سے گھیر لِیا اور اُسے سِجدہ کِیا۔ تب اُس کے بھائِیوں نے اُس سے کہا کہ کیا تُو سچ مُچ ہم پر سلطنت کرے گا یا ہم پر تیرا تسلُّط ہو گا؟ اور اُنہوں نے اُس کے خوابوں اور اُس کی باتوں کے سبب سے اُس سے اَور بھی زِیادہ بُغض رکھّا۔ پِھر اُس نے دُوسرا خواب دیکھا اور اپنے بھائِیوں کو بتایا۔ اُس نے کہا دیکھو مُجھے ایک اور خواب دِکھائی دِیا ہے کہ سُورج اور چاند اور گیارہ سِتاروں نے مُجھے سِجدہ کِیا۔ اور اُس نے اِسے اپنے باپ اور بھائِیوں دونوں کو بتایا۔ تب اُس کے باپ نے اُسے ڈانٹا اور کہا کہ یہ خواب کیا ہے جو تُو نے دیکھا ہے؟ کیا مَیں اور تیری ماں اور تیرے بھائی سچ مُچ تیرے آگے زمِین پر جُھک کر تُجھے سِجدہ کریں گے؟ اور اُس کے بھائِیوں کو اُس سے حسد ہو گیا لیکن اُس کے باپ نے یہ بات یاد رکھّی۔ اور اُس کے بھائی اپنے باپ کی بھیڑ بکریاں چرانے سِکمؔ کو گئے۔ تب اِسرائیلؔ نے یُوسفؔ سے کہا تیرے بھائی سِکمؔ میں بھیڑ بکریوں کو چرا رہے ہوں گے۔ سو آ کہ مَیں تُجھے اُن کے پاس بھیجوں۔ اُس نے اُسے کہا مَیں تیّار ہُوں۔ تب اُس نے کہا تُو جا کر دیکھ کہ تیرے بھائِیوں کا اور بھیڑ بکریوں کا کیا حال ہے اور آ کر مُجھے خبر دے۔ سو اُس نے اُسے حبرُونؔ کی وادی سے بھیجا اور وہ سِکمؔ میں آیا۔ اور ایک شخص نے اُسے میدان میں اِدھر اُدھر آوارہ پِھرتے پایا۔ یہ دیکھ کر اُس شخص نے اُس سے پُوچھا کہ تُو کیا ڈُھونڈتا ہے؟ اُس نے کہا مَیں اپنے بھائِیوں کو ڈُھونڈتا ہُوں ذرا مُجھے بتا دے کہ وہ بھیڑ بکریوں کو کہاں چرا رہے ہیں۔ اُس شخص نے کہا وہ یہاں سے چلے گئے کیونکہ مَیں نے اُن کو یہ کہتے سُنا کہ چلو ہم دُوتین کو جائیں۔ چُنانچہ یُوسفؔ اپنے بھائِیوں کی تلاش میں چلا اور اُن کو دُوتین میں پایا۔ اور جُوں ہی اُنہوں نے اُسے دُور سے دیکھا تو پیشتر اِس سے کہ وہ نزدِیک پُہنچے اُس کے قتل کا منصُوبہ باندھا۔ اور آپس میں کہنے لگے دیکھو خوابوں کا دیکھنے والا آ رہا ہے۔ آؤ اب ہم اُسے مار ڈالیں اور کِسی گڑھے میں ڈال دیں اور یہ کہہ دیں گے کہ کوئی بُرا درِندہ اُسے کھا گیا۔ پِھر دیکھیں گے کہ اُس کے خوابوں کا انجام کیا ہوتا ہے۔ تب رُوبِنؔ نے یہ سُن کر اُسے اُن کے ہاتھوں سے بچایا اور کہا ہم اُس کی جان نہ لیں۔ اور رُوبِنؔ نے اُن سے یہ بھی کہا کہ خُون نہ بہاؤ بلکہ اُسے اِس گڑھے میں جو بیابان میں ہے ڈال دو لیکن اُس پر ہاتھ نہ اُٹھاؤ۔ وہ چاہتا تھا کہ اُسے اُن کے ہاتھ سے بچا کر اُس کے باپ کے پاس سلامت پُہنچا دے۔ اور یُوں ہُؤا کہ جب یُوسفؔ اپنے بھائِیوں کے پاس پُہنچا تو اُنہوں نے اُس کی بُوقلمُون قبا کو جو وہ پہنے تھا اُتار لِیا۔ اور اُسے اُٹھا کر گڑھے میں ڈال دِیا۔ وہ گڑھا سُوکھا تھا۔ اُس میں ذرا بھی پانی نہ تھا۔ اور وہ کھانا کھانے بَیٹھے اور آنکھ اُٹھائی تو دیکھا کہ اِسمٰعیلِیوں کا ایک قافِلہ جِلعادؔ سے آ رہا ہے اور گرم مصالح اور رَوغنِ بلسان اور مُرّ اُونٹوں پر لادے ہُوئے مِصرؔ کو لِئے جا رہا ہے۔ تب یہُوداؔہ نے اپنے بھائِیوں سے کہا کہ اگر ہم اپنے بھائی کو مار ڈالیں اور اُس کا خُون چِھپائیں تو کیا نفع ہو گا؟ آؤ اُسے اِسمٰعیلِیوں کے ہاتھ بیچ ڈالیں کہ ہمارا ہاتھ اُس پر نہ اُٹھے کیونکہ وہ ہمارا بھائی اور ہمارا خُون ہے۔ اُس کے بھائِیوں نے اُس کی بات مان لی۔ پِھر وہ مِدیانی سَوداگر اُدھر سے گُذرے۔ تب اُنہوں نے یُوسفؔ کو کھینچ کر گڑھے سے باہر نِکالا اور اُسے اِسمٰعیلِیوں کے ہاتھ بِیس رُوپَے کو بیچ ڈالا اور وہ یُوسفؔ کو مِصرؔ میں لے گئے۔ جب رُوبِنؔ گڑھے پر لَوٹ کر آیا اور دیکھا کہ یُوسفؔ اُس میں نہیں ہے تو اپنا پیراہن چاک کِیا۔ اور اپنے بھائِیوں کے پاس اُلٹا پِھرا اور کہنے لگا کہ لڑکا تو وہاں نہیں ہے۔ اب مَیں کہاں جاؤں؟ پِھر اُنہوں نے یُوسفؔ کی قبا لے کر اور ایک بکرا ذبح کر کے اُسے اُس کے خُون میں تر کِیا۔ اور اُنہوں نے اُس بُوقلمُون قبا کو بِھجوا دِیا۔ سو وہ اُسے اُن کے باپ کے پاس لے آئے اور کہا کہ ہم کو یہ چِیز پڑی مِلی۔ اب تُو پہچان کہ یہ تیرے بیٹے کی قبا ہے یا نہیں؟ اور اُس نے اُسے پہچان لِیا اور کہا کہ یہ تو میرے بیٹے کی قبا ہے۔ کوئی بُرا درِندہ اُسے کھا گیا ہے۔ یُوسفؔ بیشک پھاڑا گیا۔ تب یعقُوبؔ نے اپنا پیراہن چاک کِیا اور ٹاٹ اپنی کمر سے لپیٹا اور بُہت دِنوں تک اپنے بیٹے کے لِئے ماتم کرتا رہا۔ اور اُس کے سب بیٹے بیٹِیاں اُسے تسلّی دینے جاتے تھے پر اُسے تسلّی نہ ہوتی تھی۔ وہ یِہی کہتا رہا کہ مَیں تو ماتم ہی کرتا ہُؤا قبر میں اپنے بیٹے سے جا مِلُوں گا۔ سو اُس کا باپ اُس کے لِئے روتا رہا۔ اور مِدیانِیوں نے اُسے مِصرؔ میں فُوطِیفارؔ کے ہاتھ جو فرِعونؔ کا ایک حاکِم اور جلَوداروں کا سردار تھا بیچا۔