واعظ 17:2-26
واعظ 17:2-26 کِتابِ مُقادّس (URD)
پس مَیں زِندگی سے بیزار ہُؤا کیونکہ جو کام دُنیا میں کِیا جاتا ہے مُجھے بُہت بُرا معلُوم ہُؤا کیونکہ سب بُطلان اور ہوا کی چران ہے۔ بلکہ مَیں اپنی ساری مِحنت سے جو دُنیا میں کی تھی بیزار ہُؤا کیونکہ ضرُور ہے کہ مَیں اُسے اُس آدمی کے لِئے جو میرے بعد آئے گا چھوڑ جاؤُں۔ اور کَون جانتا ہے کہ وہ دانِشور ہو گا یا احمق؟ بہر حال وہ میری ساری مِحنت کے کام پر جو مَیں نے کِیا اور جِس میں مَیں نے دُنیا میں اپنی حِکمت ظاہِر کی ضابِط ہو گا۔ یہ بھی بُطلان ہے۔ تب مَیں پِھرا کہ اپنے دِل کو اُس سارے کام سے جو مَیں نے دُنیا میں کِیا تھا نااُمّید کرُوں۔ کیونکہ اَیسا شخص بھی ہے جِس کے کام حِکمت اور دانائی اور کامیابی کے ساتھ ہیں لیکن وہ اُن کو دُوسرے آدمی کے لِئے جِس نے اُن میں کُچھ مِحنت نہیں کی اُس کی مِیراث کے لِئے چھوڑ جائے گا۔ یہ بھی بُطلان اور بلایِ عظِیم ہے۔ کیونکہ آدمی کو اُس کی ساری مشقّت اور جانفشانی سے جو اُس نے دُنیا میں کی کیا حاصِل ہے؟ کیونکہ اُس کے لِئے عُمر بھر غم ہے اور اُس کی مِحنت ماتم ہے بلکہ اُس کا دِل رات کو بھی آرام نہیں پاتا۔ یہ بھی بُطلان ہے۔ پس اِنسان کے لِئے اِس سے بِہتر کُچھ نہیں کہ وہ کھائے اور پِئے اور اپنی ساری مِحنت کے درمِیان خُوش ہو کر اپنا جی بہلائے۔ مَیں نے دیکھا کہ یہ بھی خُدا کے ہاتھ سے ہے۔ اِس لِئے کہ مُجھ سے زِیادہ کَون کھا سکتا اور کَون مزہ اُڑا سکتا ہے؟ کیونکہ وہ اُس آدمی کو جو اُس کے حضُور میں اچھّا ہے حِکمت اور دانائی اور خُوشی بخشتا ہے لیکن گُنہگار کو زحمت دیتا ہے کہ وہ جمع کرے اور انبار لگائے تاکہ اُسے دے جو خُدا کا پسندِیدہ ہے۔ یہ بھی بُطلان اور ہوا کی چران ہے۔
واعظ 17:2-26 اُردو ہم عصر ترجُمہ (UCV)
چنانچہ میں زندگی سے نفرت کرنے لگا کیونکہ جو بھی کام دُنیا میں کیا جاتا ہے وہ میرے لیٔے تکلیف دہ تھا۔ کیونکہ سَب کچھ باطِل اَور ہَوا کو پکڑنے کے برابر ہے۔ اِس لیٔے مَیں نے جو بھی محنت و مشقّت اِس دُنیا میں کی تھی اُس سے مُجھے سخت نفرت ہو گئی کیونکہ مُجھے لازماً اُنہیں اَپنے بعد آنے والے شخص کے لیٔے چھوڑنا پڑےگا۔ اَور کون جانتا ہے کہ وہ دانشمند ہوگا یا احمق؟ بہرحال وہ میرے اُن تمام چیزوں کا مالک ہوگا جسے حاصل کرنے کے لیٔے مَیں نے دُنیا میں اَپنی پُوری طاقت و حِکمت خرچ کی ہے۔ یہ بھی باطِل ہی ہے۔ لہٰذا میرا دِل اُن سارے محنت کے کاموں سے جسے مَیں نے دُنیا میں کیا مایوس ہو گیا۔ کیونکہ خواہ کویٔی آدمی اَپنا کام حِکمت، علم اَور ہُنر سے کیوں نہ کرتا ہو، آخِرکار اُسے سَب کچھ لازماً کسی دُوسرے کے لیٔے چھوڑکر جانا پڑتا ہے جِس نے اُس کے لیٔے کچھ محنت ہی نہیں کی۔ یہ بھی باطِل اَور ایک بڑی بدقسمتی ہے۔ کسی آدمی کو اُن تمام مشقّت اَور جانفشانی کے بدلہ میں جو وہ دُنیا میں کرتا ہے، کیا حاصل ہوتاہے؟ حقیقت میں عمر بھر اُن کی پُوری محنت باعثِ رنج و غم ہے، یہاں تک کہ رات کو بھی اُس کے دِل و ذہن کو سکون نہیں ملتا۔ یہ بھی باطِل ہے۔ آدمی کے لیٔے اِس سے بہتر کچھ نہیں کہ وہ کھائے پیئے اَور اَپنی محنت و مشقّت کے پھل کے پھل کا لُطف اُٹھائے اَور خُود کو یقین دِلائے کہ اُس کی محنت فائدہ مند ہے، مَیں نے یہ بھی مَعلُوم کیا ہے کہ اَیسا استحقاق خُدا کی طرف سے ہی نصیب ہوتاہے۔ کیونکہ خُدا کے رحم و کرم کے بغیر کون کھا پی یا عیش و آرام سے رہ سَکتا ہے؟ جو اِنسان خُدا کو پسند آتا ہے اُسے وہ دانائی، علم اَور خُوشی عطا کرتا ہے لیکن گُنہگار کو وہ دولت جمع کرنے اَور اُس کے انبار لگانے کی ذمّہ داری دیتاہے تاکہ بعد میں یہ دولت خُدا کو پسند آنے والے شخص کے حوالہ کی جائے۔ یہ بھی باطِل اَور ہَوا کو پکڑنے کے برابر ہے۔
واعظ 17:2-26 ہولی بائبل کا اردو جیو ورژن (URDGVU)
یوں سوچتے سوچتے مَیں زندگی سے نفرت کرنے لگا۔ جو بھی کام سورج تلے کیا جاتا ہے وہ مجھے بُرا لگا، کیونکہ سب کچھ باطل اور ہَوا کو پکڑنے کے برابر ہے۔ سورج تلے مَیں نے جو کچھ بھی محنت مشقت سے حاصل کیا تھا اُس سے مجھے نفرت ہو گئی، کیونکہ مجھے یہ سب کچھ اُس کے لئے چھوڑنا ہے جو میرے بعد میری جگہ آئے گا۔ اور کیا معلوم کہ وہ دانش مند یا احمق ہو گا؟ لیکن جو بھی ہو، وہ اُن تمام چیزوں کا مالک ہو گا جو حاصل کرنے کے لئے مَیں نے سورج تلے اپنی پوری طاقت اور حکمت صَرف کی ہے۔ یہ بھی باطل ہے۔ تب میرا دل مایوس ہو کر ہمت ہارنے لگا، کیونکہ جو بھی محنت مشقت مَیں نے سورج تلے کی تھی وہ بےکار سی لگی۔ کیونکہ خواہ انسان اپنا کام حکمت، علم اور مہارت سے کیوں نہ کرے، آخرکار اُسے سب کچھ کسی کے لئے چھوڑنا ہے جس نے اُس کے لئے ایک اُنگلی بھی نہیں ہلائی۔ یہ بھی باطل اور بڑی مصیبت ہے۔ کیونکہ آخر میں انسان کے لئے کیا کچھ قائم رہتا ہے، جبکہ اُس نے سورج تلے اِتنی محنت مشقت اور کوششوں کے ساتھ سب کچھ حاصل کر لیا ہے؟ اُس کے تمام دن دُکھ اور رنجیدگی سے بھرے رہتے ہیں، رات کو بھی اُس کا دل آرام نہیں پاتا۔ یہ بھی باطل ہی ہے۔ انسان کے لئے سب سے اچھی بات یہ ہے کہ کھائے پیئے اور اپنی محنت مشقت کے پھل سے لطف اندوز ہو۔ لیکن مَیں نے یہ بھی جان لیا کہ اللہ ہی یہ سب کچھ مہیا کرتا ہے۔ کیونکہ اُس کے بغیر کون کھا کر خوش ہو سکتا ہے؟ کوئی نہیں! جو انسان اللہ کو منظور ہو اُسے وہ حکمت، علم و عرفان اور خوشی عطا کرتا ہے، لیکن گناہ گار کو وہ جمع کرنے اور ذخیرہ کرنے کی ذمہ داری دیتا ہے تاکہ بعد میں یہ دولت اللہ کو منظور شخص کے حوالے کی جائے۔ یہ بھی باطل اور ہَوا کو پکڑنے کے برابر ہے۔