اعمال 9:27-20
اعمال 9:27-20 اُردو ہم عصر ترجُمہ (UCV)
وقت بہت ضائع ہو چُکاتھا، وہاں ہمیں کیٔی دِنوں تک رُکنا پڑا کیونکہ روزہ کا دِن گزر چُکاتھا اَور اُس موسم میں سمُندری سفر اَور بھی پُرخطر ہو جاتا ہے۔ اِس لیٔے پَولُسؔ نے اُنہیں نصیحت کے طور پر کہا، ”اَے بھائیو، مُجھے لگتا ہے کہ ہمارا سفر پُرخطر ثابت ہوگا اَور نہ صِرف مال و اَسباب اَور سمُندری جہاز کا بَلکہ ہماری جانوں کا بھی خطرہ ہے۔“ لیکن فَوج کے کپتان نے پَولُسؔ کی بات سُننے کی بجائے جہاز کے کپتان اَور مالک کی باتوں کو زِیادہ اہمیّت دی۔ چونکہ وہ بندرگاہ سردی کا موسم گُزارنے کے لیٔے موزوں نہ تھی، اِس لیٔے اکثریت کا فیصلہ یہ تھا کہ ہم آگے بڑھیں اَور اُمّید رکھیں کہ فِینِکسؔ میں پہُنچ کر سردی کا موسم وہاں گزار سکیں گے۔ یہ کریتےؔ کی ایک بندرگاہ تھی جِس کا رُخ شمال مشرق اَور جُنوب مشرق کی جانِب تھا۔ جَب جُنوب کی طرف سے ہلکی ہلکی ہَوا چلنا شروع ہو گئی، تو وہ سمجھے کہ اَب ہماری مُشکل جاتی رہی؛ لہٰذا اُنہُوں نے لنگر اُٹھایا اَور کریتےؔ کے ساحِل کے ساتھ ساتھ آگے بڑھے۔ لیکن جلد ہی بڑی طُوفانی ہَوا جسے یُورکُلونؔ کہتے ہیں شمال مشرق کی جانِب سے آئی جَزِیرہ کے نیچے بہہ گئی۔ سمُندری جہاز طُوفان کی گرفت میں آ گیا اَور جہاز ہچکولے کھانے لگا؛ لہٰذا ہم نے لاچار ہوکر جہاز ہَوا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ جَب ہم بہتے بہتے ایک چُھوٹے جَزِیرہ کودہؔ تک پہُنچے، ہم ڈونگی کو بڑی مُشکل سے قابُو میں لا سکے، اِس لیٔے ہمارے آدمیوں نے سے اُوپر چڑھا لیا۔ پس سمُندری جہاز کو ٹُوٹنے سے بچانے کے لیٔے سے اُوپر سے نیچے تک رسّوں سے باندھ دیا۔ کیونکہ اُنہیں خوف تھا کہ کہیں اَیسا نہ ہو کہ جہاز سورتِسؔ کی کھاڑی کی ریت میں دھنس کر رہ جائے، لہٰذا اُنہُوں نے سمُندری لنگر کو نیچے کر دیا اَور جہاز کو اُسی طرح بہنے دیا۔ جَب جہاز طُوفانی ہَوا میں بہت ہی ہچکولے کھانے لگا تو اگلے دِن اُنہُوں نے جہاز کا مال سمُندر میں پھینکنا شروع کر دیا۔ تیسرے دِن اُنہُوں نے اَپنے ہاتھوں سے سمُندری جہاز کے آلات وغیرہ بھی نیچے پھینک دئیے۔ جَب کیٔی دِنوں تک سُورج نظر آیا نہ تارے اَور طُوفان کا زور بھی بڑھنے لگا تو بچنے کی آخِری اُمّید بھی جاتی رہی۔
اعمال 9:27-20 ہولی بائبل کا اردو جیو ورژن (URDGVU)
بہت وقت ضائع ہو گیا تھا اور اب بحری سفر خطرناک بھی ہو چکا تھا، کیونکہ کفارہ کا دن (تقریباً نومبر کے شروع میں) گزر چکا تھا۔ اِس لئے پولس نے اُنہیں آگاہ کیا، ”حضرات، مجھے پتا ہے کہ آگے جا کر ہم پر بڑی مصیبت آئے گی۔ ہمیں جہاز، مال و اسباب اور جانوں کا نقصان اُٹھانا پڑے گا۔“ لیکن قیدیوں پر مقرر رومی افسر نے اُس کی بات نظرانداز کر کے جہاز کے ناخدا اور مالک کی بات مانی۔ چونکہ ’حسین بندر‘ میں جہاز کو سردیوں کے موسم کے لئے رکھنا مشکل تھا اِس لئے اکثر لوگ آگے فینکس تک پہنچ کر سردیوں کا موسم گزارنا چاہتے تھے۔ کیونکہ فینکس جزیرۂ کریتے کی اچھی بندرگاہ تھی جو صرف جنوب مغرب اور شمال مغرب کی طرف کھلی تھی۔ چنانچہ ایک دن جب جنوب کی سمت سے ہلکی سی ہَوا چلنے لگی تو ملاحوں نے سوچا کہ ہمارا ارادہ پورا ہو گیا ہے۔ وہ لنگر اُٹھا کر کریتے کے ساحل کے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد موسم بدل گیا اور اُن پر جزیرے کی طرف سے ایک طوفانی ہَوا ٹوٹ پڑی جو بادِ شمال مشرقی کہلاتی ہے۔ جہاز ہَوا کے قابو میں آ گیا اور ہَوا کی طرف رُخ نہ کر سکا، اِس لئے ہم نے ہار مان کر جہاز کو ہَوا کے ساتھ ساتھ چلنے دیا۔ جب ہم ایک چھوٹے جزیرہ بنام کوَدہ کی آڑ میں سے گزرنے لگے تو ہم نے بڑی مشکل سے بچاؤ کشتی کو جہاز پر اُٹھا کر محفوظ رکھا۔ (اب تک وہ رسّے سے جہاز کے ساتھ کھینچی جا رہی تھی۔) پھر ملاحوں نے جہاز کے ڈھانچے کو زیادہ مضبوط بنانے کی خاطر اُس کے ارد گرد رسّے باندھے۔ خوف یہ تھا کہ جہاز شمالی افریقہ کے قریب پڑے چوربالو میں دھنس جائے۔ (اِن ریتوں کا نام سورتس تھا۔) اِس سے بچنے کے لئے اُنہوں نے لنگر ڈال دیا تاکہ جہاز کچھ آہستہ چلے۔ یوں جہاز ہَوا کے ساتھ چلتے چلتے آگے بڑھا۔ اگلے دن بھی طوفان جہاز کو اِتنی شدت سے جھنجھوڑ رہا تھا کہ ملاح مال و اسباب کو سمندر میں پھینکنے لگے۔ تیسرے دن اُنہوں نے اپنے ہی ہاتھوں سے جہاز چلانے کا کچھ سامان سمندر میں پھینک دیا۔ طوفان کی شدت بہت دنوں کے بعد بھی ختم نہ ہوئی۔ نہ سورج اور نہ ستارے نظر آئے یہاں تک کہ آخرکار ہمارے بچنے کی ہر اُمید جاتی رہی۔
اعمال 9:27-20 کِتابِ مُقادّس (URD)
جب بُہت عرصہ گُذر گیا اور جہاز کا سفر اِس لِئے خطرناک ہو گیا کہ روزہ کا دِن گُذر چُکا تھا تو پَولُس نے اُنہیں یہ کہہ کر نصِیحت کی۔ کہ اَے صاحِبو! مُجھے معلُوم ہوتا ہے کہ اِس سفر میں تکلِیف اور بُہت نُقصان ہو گا۔ نہ صِرف مال اور جہاز کا بلکہ ہماری جانوں کا بھی۔ مگر صُوبہ دار نے ناخُدا اور جہاز کے مالِک کی باتوں پر پَولُس کی باتوں سے زِیادہ لِحاظ کِیا۔ اور چُونکہ وہ بندر جاڑوں میں رہنے کے لِئے اچھّا نہ تھا اِس لِئے اکثر لوگوں کی صلاح ٹھہری کہ وہاں سے روانہ ہوں اور اگر ہو سکے تو فِینِکس میں پُہنچ کر جاڑا کاٹیں۔ وہ کریتے کا ایک بندر ہے جِس کا رُخ شِمال مشرِق اور جنُوب مشرِق کو ہے۔ جب کُچھ کُچھ دکھّنا ہوا چلنے لگی تو اُنہوں نے یہ سمجھ کر کہ ہمارا مطلَب حاصِل ہو گیا لنگر اُٹھایا اور کریتے کے کنارے کے قرِیب قرِیب چلے۔ لیکن تھوڑی دیر بعد ایک بڑی طُوفانی ہوا جو یُورکلُون کہلاتی ہے کریتے پر سے جہاز پر آئی۔ اور جب جہاز ہوا کے قابُو میں آ گیا اور اُس کا سامنا نہ کر سکا تو ہم نے لاچار ہو کر اُس کو بہنے دِیا۔ اور کوَدہ نام ایک چھوٹے جزِیرہ کی آڑ میں بہتے بہتے ہم بڑی مُشکِل سے ڈونگی کو قابُو میں لائے۔ اور جب ملاّح اُس کو اُوپر چڑھا چُکے تو جہاز کی مضبُوطی کی تدبِیریں کر کے اُس کو نِیچے سے باندھا اور سُورتِس کے چوربالُو میں دھس جانے کے ڈر سے جہاز کا ساز و سامان اُتار لِیا اور اُسی طرح بہتے چلے گئے۔ مگر جب ہم نے آندھی سے بُہت ہچکولے کھائے تو دُوسرے دِن وہ جہاز کا مال پَھینکنے لگے۔ اور تِیسرے دِن اُنہوں نے اپنے ہی ہاتھوں سے جہاز کے آلات و اسباب بھی پَھینک دِئے۔ اور جب بُہت دِنوں تک نہ سُورج نظر آیا نہ تارے اور شِدّت کی آندھی چل رہی تھی تو آخِر ہم کو بچنے کی اُمّید بِالکُل نہ رہی۔