اعمال 13:25-27
اعمال 13:25-27 اُردو ہم عصر ترجُمہ (UCV)
کچھ دِنوں بعد اگرِپّاَ بادشاہ اَور بِرنِیکےؔ، قَیصؔریہ آئے تاکہ فِیستُسؔ سے مُلاقات کر سکیں۔ چونکہ وہ کافی دِنوں تک وہیں رہے اِس لیٔے فِیستُسؔ نے پَولُسؔ کے مُقدّمہ کا حال بادشاہ سے بَیان کیا: ”یہاں ایک آدمی ہے جسے فیلِکسؔ قَید میں چھوڑ گیا ہے۔ جَب مَیں یروشلیمؔ میں تھا تو اہم کاہِنوں اَور یہُودیوں کے بُزرگ میرے پاس یہ فریاد لے کر آئے کہ اُس کے خِلاف سزا کا حُکم صادر کیا جائے۔ ”مَیں نے اُنہیں بتایا کہ رُومی دستور کے مُطابق کویٔی شخص سزا پانے کے لیٔے حوالہ نہیں کیا جا سَکتا جَب تک کہ اُسے اَپنے مُدّعیوں کے رُوبرو اُن کے اِلزام کے بارے میں اَپنی صفائی پیش کرنے کا موقع نہ دیا جائے۔ چنانچہ جَب وہ لوگ یہاں آئے تو مَیں نے فوراً اگلے ہی دِن اُسے اَپنی عدالت مَیں حاضِر ہونے کا حُکم دیا۔ جَب اُس کے مُدّعی اَپنا دعویٰ پیش کرنے کے لیٔے اُٹھے تو اُنہُوں نے اُس پر کسی اَیسے جُرم کا اِلزام نہ لگایا جِس کا مُجھے گُمان تھا۔ بَلکہ اُن کا جھگڑا اُن کے اَپنے مَذہب اَور کسی آدمی یِسوعؔ المسیح کے بارے میں تھا جو مَر چُکاہے مگر پَولُسؔ اُسے زندہ بتاتا ہے۔ میں بڑی اُلجھن میں ہُوں کہ اَیسی باتوں کی تحقیقات کیسے کروں؛ اِس لیٔے مَیں نے پَولُسؔ سے پُوچھا کہ کیا اُسے یروشلیمؔ جانا منظُور ہے تاکہ اِن باتوں کا فیصلہ وہاں ہو؟ لیکن پَولُسؔ نے اپیل کر دی کہ اُن کے مُقدّمہ کا فیصلہ قَیصؔر کی عدالت میں ہو، لہٰذا مَیں نے حُکم دیا کہ وہ قَیصؔر کے پاس بھیجے جانے تک حوالات میں رہے۔“ تَب اگرِپّاَنے فِیستُسؔ سے کہا، ”میں بھی اُس شخص کی باتیں اُس کی زبانی سُننا چاہتا ہُوں۔“ فِیستُسؔ نے جَواب دیا، ”آپ اُسے کل سُن سکیں گے۔“ اگلے دِن اگرِپّاَ اَور بِرنِیکےؔ بڑی شان و شوکت کے ساتھ آئے اَور پلٹن کے اعلیٰ افسران اَور شہر کے مُعزّز لوگوں کے ساتھ دیوان خانہ میں داخل ہویٔے۔ فِیستُسؔ نے حُکم دیا، پَولُسؔ کو وہاں حاضِر کیا جائے۔ پھر فِیستُسؔ نے کہا: ”اگرِپّاَ بادشاہ، اَور جمع حاضرین، تُم اِس شخص کو دیکھتے ہو! جِس کے برخلاف ساری یہُودی قوم نے مُجھ سے یروشلیمؔ میں اَور یہاں قَیصؔریہ میں، چِلّا چِلّاکر درخواست کی ہے کہ اِسے زندہ نہ چھوڑا جائے۔ لیکن مُجھے مَعلُوم ہُواہے کہ پَولُسؔ نے اَیسی کویٔی خطا نہیں کی کہ اُسے سزائے موت دی جائے، چونکہ اَب اِس نے قَیصؔر کے ہاں اپیل کی ہے تو مَیں نے مُناسب سمجھا کہ اِسے رُوم بھیج دُوں۔ لیکن آقائے اعلیٰ قَیصؔر کو لکھنے کے لیٔے میرے پاس کویٔی خاص بات نہیں ہے۔ لہٰذا مَیں نے اِسے یہاں تمہارے، اَور خاص طور پر اگرِپّاَ بادشاہ کے سامنے حاضِر کیا ہے، تاکہ تحقیقات کے بعد کویٔی اَیسی بات مَعلُوم ہو جسے میں قَیصؔر کو لِکھ کر بھیج سکوں۔ کیونکہ کسی قَیدی کو بھیجتے وقت اُس پر لگائے گیٔے اِلزامات کو ظاہر نہ کرنا میرے نزدیک دانشمندی نہیں ہے۔“
اعمال 13:25-27 ہولی بائبل کا اردو جیو ورژن (URDGVU)
کچھ دن گزر گئے تو اگرپا بادشاہ اپنی بہن برنیکے کے ساتھ فیستس سے ملنے آیا۔ وہ کئی دن وہاں ٹھہرے رہے۔ اِتنے میں فیستس نے پولس کے معاملے پر بادشاہ کے ساتھ بات کی۔ اُس نے کہا، ”یہاں ایک قیدی ہے جسے فیلکس چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ جب مَیں یروشلم گیا تو راہنما اماموں اور یہودی بزرگوں نے اُس پر الزامات لگا کر اُسے مجرم قرار دینے کا تقاضا کیا۔ مَیں نے اُنہیں جواب دیا، ’رومی قانون کسی کو عدالت میں پیش کئے بغیر مجرم قرار نہیں دیتا۔ لازم ہے کہ اُسے پہلے الزام لگانے والوں کا سامنا کرنے کا موقع دیا جائے تاکہ اپنا دفاع کر سکے۔‘ جب اُس پر الزام لگانے والے یہاں پہنچے تو مَیں نے تاخیر نہ کی۔ مَیں نے اگلے ہی دن عدالت منعقد کر کے پولس کو پیش کرنے کا حکم دیا۔ لیکن جب اُس کے مخالف الزام لگانے کے لئے کھڑے ہوئے تو وہ ایسے جرم نہیں تھے جن کی توقع مَیں کر رہا تھا۔ اُن کا اُس کے ساتھ کوئی اَور جھگڑا تھا جو اُن کے اپنے مذہب اور ایک مُردہ آدمی بنام عیسیٰ سے تعلق رکھتا ہے۔ اِس عیسیٰ کے بارے میں پولس دعویٰ کرتا ہے کہ وہ زندہ ہے۔ مَیں اُلجھن میں پڑ گیا کیونکہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ کس طرح اِس معاملے کا صحیح جائزہ لوں۔ چنانچہ مَیں نے پوچھا، ’کیا آپ یروشلم جا کر وہاں عدالت میں پیش کئے جانے کے لئے تیار ہیں؟‘ لیکن پولس نے اپیل کی، ’شہنشاہ ہی میرا فیصلہ کرے۔‘ پھر مَیں نے حکم دیا کہ اُسے اُس وقت تک قید میں رکھا جائے جب تک اُسے شہنشاہ کے پاس بھیجنے کا انتظام نہ کروا سکوں۔“ اگرپا نے فیستس سے کہا، ”مَیں بھی اُس شخص کو سننا چاہتا ہوں۔“ اُس نے جواب دیا، ”کل ہی آپ اُس کو سن لیں گے۔“ اگلے دن اگرپا اور برنیکے بڑی دھوم دھام کے ساتھ آئے اور بڑے فوجی افسروں اور شہر کے نامور آدمیوں کے ساتھ دیوانِ عام میں داخل ہوئے۔ فیستس کے حکم پر پولس کو اندر لایا گیا۔ فیستس نے کہا، ”اگرپا بادشاہ اور تمام خواتین و حضرات! آپ یہاں ایک آدمی کو دیکھتے ہیں جس کے بارے میں تمام یہودی خواہ وہ یروشلم کے رہنے والے ہوں، خواہ یہاں کے، شور مچا کر سزائے موت کا تقاضا کر رہے ہیں۔ میری دانست میں تو اِس نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جو سزائے موت کے لائق ہو۔ لیکن اِس نے شہنشاہ سے اپیل کی ہے، اِس لئے مَیں نے اِسے روم بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن مَیں شہنشاہ کو کیا لکھ دوں؟ کیونکہ اِس پر کوئی صاف الزام نہیں لگایا گیا۔ اِس لئے مَیں اِسے آپ سب کے سامنے لایا ہوں، خاص کر اگرپا بادشاہ آپ کے سامنے، تاکہ آپ اِس کی تفتیش کریں اور مَیں کچھ لکھ سکوں۔ کیونکہ مجھے بےتُکی سی بات لگ رہی ہے کہ ہم ایک قیدی کو روم بھیجیں جس پر اب تک صاف الزامات نہیں لگائے گئے ہیں۔“
اعمال 13:25-27 کِتابِ مُقادّس (URD)
اور کُچھ دِن گُذرنے کے بعد اگرِپّا بادشاہ اور برنِیکے نے قَیصرؔیہ میں آ کر فیستُس سے مُلاقات کی۔ اور اُن کے کُچھ عرصہ وہاں رہنے کے بعد فیستُس نے پَولُس کے مُقدّمہ کا حال بادشاہ سے یہ کہہ کر بیان کِیا کہ ایک شخص کو فیلِکس قَید میں چھوڑ گیا ہے۔ جب مَیں یروشلِیم میں تھا تو سردار کاہِنوں اور یہُودِیوں کے بزُرگوں نے اُس کے خِلاف فریاد کی اور سزا کے حُکم کی درخواست کی۔ اُن کو مَیں نے جواب دِیا کہ رُومیوں کا یہ دستُور نہیں کہ کِسی آدمی کو رِعایتہً سزا کے لِئے حوالہ کریں جب تک کہ مُدّعا علَیہ کو اپنے مُدّعیوں کے رُوبرُو ہو کر دعویٰ کے جواب دینے کا مَوقع نہ مِلے۔ پس جب وہ یہاں جمع ہُوئے تو مَیں نے کُچھ دیر نہ کی بلکہ دُوسرے ہی دِن تختِ عدالت پر بَیٹھ کر اُس آدمی کو لانے کا حُکم دِیا۔ مگر جب اُس کے مُدَّعی کھڑے ہُوئے تو جِن بُرائیوں کا مُجھے گُمان تھا اُن میں سے اُنہوں نے کِسی کا اِلزام اُس پر نہ لگایا۔ بلکہ اپنے دِین اور کِسی شخص یِسُوع کی بابت اُس سے بحث کرتے تھے جو مَر گیا تھا اور پَولُس اُس کو زِندہ بتاتا ہے۔ چُونکہ مَیں اِن باتوں کی تحقِیقات کی بابت اُلجھن میں تھا اِس لِئے اُس سے پُوچھا کیا تُو یرُوشلیم میں جانے کو راضی ہے کہ وہاں اِن باتوں کا فَیصلہ ہو؟ مگر جب پَولُس نے اپِیل کی کہ میرا مُقدّمہ شہنشاہ کی عدالت میں فَیصل ہو تو مَیں نے حُکم دِیا کہ جب تک اُسے قَیصر کے پاس نہ بھیجُوں وہ قَید رہے۔ اگرِپّا نے فیستُس سے کہا مَیں بھی اُس آدمی کی سُننا چاہتا ہُوں۔ اُس نے کہا کہ تُو کل سُن لے گا۔ پس دُوسرے دِن جب اگرِپّا اور برنِیکے بڑی شان و شوکت سے پلٹن کے سرداروں اور شہر کے رئِیسوں کے ساتھ دِیوان خانہ میں داخِل ہُوئے تو فیستُس کے حُکم سے پَولُس حاضِر کِیا گیا۔ پِھر فیستُس نے کہا اے اگرِپّا بادشاہ اور اے سب حاضرِین تُم اِس شخص کو دیکھتے ہو جِس کی بابت یہُودِیوں کی ساری گُروہ نے یروشلِیم میں اور یہاں بھی چِلاّ چِلاّ کر مُجھ سے عرض کی کہ اِس کا آگے کو جِیتا رہنا مُناسِب نہیں۔ لیکن مُجھے معلُوم ہُؤا کہ اُس نے قتل کے لائِق کُچھ نہیں کِیا اور جب اُس نے خُود شہنشاہ کے ہاں اپِیل کی تو مَیں نے اُس کو بھیجنے کی تجوِیز کی۔ اُس کی نِسبت مُجھے کوئی ٹِھیک بات معلُوم نہیں کہ سرکارِ عالی کو لِکُھوں۔ اِس واسطے مَیں نے اُس کو تُمہارے آگے اور خاص کر اَے اگرِپّا بادشاہ تیرے حُضُور حاضِر کِیا ہے تاکہ تحقِیقات کے بعد لِکھنے کے قابِل کوئی بات نِکلے۔ کیونکہ قَیدی کے بھیجتے وقت اُن اِلزاموں کو جو اُس پر لگائے گئے ہوں ظاہِر نہ کرنا مُجھے خِلافِ عقل معلُوم ہوتا ہے۔