اعمال 1:23-10
اعمال 1:23-10 اُردو ہم عصر ترجُمہ (UCV)
پَولُسؔ نے مَجلِس عامہ کے اراکین پر گہری نظر ڈال کر کہا، ”میرے بھائیو، میں آج تک بڑی نیک نیّتی سے خُدا کے حُکموں کے مُطابق زندگی گزارتا آیا ہُوں۔“ اعلیٰ کاہِن، حننیاہؔ نے پَولُسؔ کے پاس کھڑے ہویٔے لوگوں کو حُکم دیا کہ پَولُسؔ کے مُنہ پر تھپّڑ مارو۔ پَولُسؔ نے اعلیٰ کاہِن سے کہا، ”اَے سفیدی پھری ہویٔی دیوار! تُم پر خُدا کی مار، حننیاہؔ یہاں بیٹھے ہو کہ شَریعت کے مُطابق میرا اِنصاف کرو، پھر بھی تُم خُود شَریعت کے خِلاف مُجھے مارنے کا حُکم دیتے ہو!“ جو پاس کھڑے تھے کہنے لگے، ”تُجھے خُدا کے اعلیٰ کاہِن کو بُرا کہنے کی جُرأت کیسے ہویٔی!“ پَولُسؔ نے جَواب دیا، ”بھائیو، مُجھے مَعلُوم نہ تھا کہ یہ اعلیٰ کاہِن ہیں؛ شَریعت میں لِکھّا ہے: ’تو اَپنی قوم کے رہنماؤں پر لعنت مت بھیجنا۔‘“ پَولُسؔ کو مَعلُوم تھا کہ اُن میں بعض صدُوقی ہیں اَور بعض فرِیسی، وہ مَجلِس عامہ میں پُکار کر کہنے لگے، ”میرے بھائیو، میں فرِیسی ہُوں، فریسیوں سے آیا ہُوں۔ مُجھ پر اِس لیٔے مُقدّمہ چلایا جا رہاہے کہ میں اُمّید رکھتا ہُوں کہ مُردوں کی قیامت یعنی مُردے پھر سے جی اُٹھیں گے۔“ اُن کے یہ کہتے ہی فریسیوں اَور صدُوقیِوں میں تکرار شروع ہو گئی، اَور حاضرین میں تفرِیق پڑ گئی۔ (صدُوقی کہتے ہیں کہ قیامت نہیں ہوگی، اَور نہ تو فرشتہ کویٔی چیز ہے نہ ہی رُوحیں، لیکن فرِیسی اِن سَب چیزوں کے قائل ہیں۔) فوراً بڑا ہنگامہ برپا ہو گیا، اَور شَریعت کے عالِموں میں سے بعض جو فرِیسی تھے کھڑے ہوکر بحث کرنے لگے۔ ”ہم اِس آدمی میں کویٔی قُصُور نہیں پاتے،“ اُنہُوں نے کہا۔ ”اگر کسی فرشتہ یا رُوح نے اِس سے بات کی ہے تو کیا ہُوا؟“ بات اِتنی بڑھی کہ پلٹن کے سالار کو خوف محسُوس ہونے لگاکہ کہیں پَولُسؔ کے ٹکڑے ٹکڑے نہ کر دئیے جایٔیں۔ اُس نے سپاہیوں کو حُکم دیا کہ نیچے جایٔیں اَور پَولُسؔ کو وہاں سے زبردستی نکال کر فَوجیوں کے خیمے میں لے جایٔیں۔
اعمال 1:23-10 ہولی بائبل کا اردو جیو ورژن (URDGVU)
پولس نے غور سے عدالتِ عالیہ کے ممبران کی طرف دیکھ کر کہا، ”بھائیو، آج تک مَیں نے صاف ضمیر کے ساتھ اللہ کے سامنے زندگی گزاری ہے۔“ اِس پر امامِ اعظم حننیاہ نے پولس کے قریب کھڑے لوگوں سے کہا کہ وہ اُس کے منہ پر تھپڑ ماریں۔ پولس نے اُس سے کہا، ”مکار! اللہ تم کو ہی مارے گا، کیونکہ تم یہاں بیٹھے شریعت کے مطابق میرا فیصلہ کرنا چاہتے ہو جبکہ مجھے مارنے کا حکم دے کر خود شریعت کی خلاف ورزی کر رہے ہو!“ پولس کے قریب کھڑے آدمیوں نے کہا، ”تم اللہ کے امامِ اعظم کو بُرا کہنے کی جرأت کیونکر کرتے ہو؟“ پولس نے جواب دیا، ”بھائیو، مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ امامِ اعظم ہیں، ورنہ ایسے الفاظ استعمال نہ کرتا۔ کیونکہ کلامِ مُقدّس میں لکھا ہے کہ اپنی قوم کے حاکموں کو بُرا بھلا مت کہنا۔“ پولس کو علم تھا کہ عدالتِ عالیہ کے کچھ لوگ صدوقی ہیں جبکہ دیگر فریسی ہیں۔ اِس لئے وہ اجلاس میں پکار اُٹھا، ”بھائیو، مَیں فریسی بلکہ فریسی کا بیٹا بھی ہوں۔ مجھے اِس لئے عدالت میں پیش کیا گیا ہے کہ مَیں مُردوں میں سے جی اُٹھنے کی اُمید رکھتا ہوں۔“ اِس بات سے فریسی اور صدوقی ایک دوسرے سے جھگڑنے لگے اور اجلاس کے افراد دو گروہوں میں بٹ گئے۔ وجہ یہ تھی کہ صدوقی نہیں مانتے کہ ہم جی اُٹھیں گے۔ وہ فرشتوں اور روحوں کا بھی انکار کرتے ہیں۔ اِس کے مقابلے میں فریسی یہ سب کچھ مانتے ہیں۔ ہوتے ہوتے بڑا شور مچ گیا۔ فریسی فرقے کے کچھ عالِم کھڑے ہو کر جوش سے بحث کرنے لگے، ”ہمیں اِس آدمی میں کوئی غلطی نظر نہیں آتی، شاید کوئی روح یا فرشتہ اِس سے ہم کلام ہوا ہو۔“ جھگڑے نے اِتنا زور پکڑا کہ کمانڈر ڈر گیا، کیونکہ خطرہ تھا کہ وہ پولس کے ٹکڑے کر ڈالیں۔ اِس لئے اُس نے اپنے فوجیوں کو حکم دیا کہ وہ اُتریں اور پولس کو یہودیوں کے بیچ میں سے چھین کر قلعے میں واپس لائیں۔
اعمال 1:23-10 کِتابِ مُقادّس (URD)
پَولُس نے صدرعدالت والوں کو غَور سے دیکھ کر کہا اَے بھائِیو! مَیں نے آج تک کمال نیک نِیّتی سے خُدا کے واسطے عُمر گُذاری ہے۔ سردار کاہِن حننیّاؔہ نے اُن کو جو اُس کے پاس کھڑے تھے حُکم دِیا کہ اُس کے مُنہ پر طمانچہ مارو۔ پَولُس نے اُس سے کہا اَے سفیدی پِھری ہُوئی دِیوار! خُدا تُجھے مارے گا۔ تُو شرِیعت کے مُوافِق میرا اِنصاف کرنے کو بَیٹھا ہے اور کیا شرِیعت کے برخِلاف مُجھے مارنے کا حُکم دیتا ہے؟ جو پاس کھڑے تھے اُنہوں نے کہا کیا تُو خُدا کے سردار کاہِن کو بُرا کہتا ہے؟ پَولُس نے کہا اَے بھائِیو! مُجھے معلُوم نہ تھا کہ یہ سردار کاہِن ہے کیونکہ لِکھا ہے کہ اپنی قَوم کے سردار کو بُرا نہ کہہ۔ جب پَولُس نے یہ معلُوم کِیا کہ بعض صدُوقی ہیں اور بعض فرِیسی تو عدالت میں پُکار کر کہا کہ اَے بھائِیو! مَیں فرِیسی اور فرِیسِیوں کی اَولاد ہُوں۔ مُردوں کی اُمّید اور قِیامت کے بارے میں مُجھ پر مُقدّمہ ہو رہا ہے۔ جب اُس نے یہ کہا تو فرِیسِیوں اور صدُوقِیوں میں تکرار ہُوئی اور حاضرِین میں پُھوٹ پڑ گئی۔ کیونکہ صدُوقی تو کہتے ہیں کہ نہ قِیامت ہوگی نہ کوئی فرِشتہ ہے نہ رُوح مگر فرِیسی دونوں کا اِقرار کرتے ہیں۔ پس بڑا شور ہُؤا اور فرِیسِیوں کے فِرقہ کے بعض فقِیہہ اُٹھے اور یُوں کہہ کر جھگڑنے لگے کہ ہم اِس آدمی میں کُچھ بُرائی نہیں پاتے اور اگر کِسی رُوح یا فرِشتہ نے اِس سے کلام کِیا ہو تو پِھر کیا؟ اور جب بڑی تکرار ہُوئی تو پلٹن کے سردار نے اِس خَوف سے کہ مبادا پَولُس کے ٹُکڑے کر دِئے جائیں فَوج کو حُکم دِیا کہ اُتر کر اُسے اُن میں سے زبردستی نِکالو اور قلعہ میں لے آؤ۔