۱-سموئیل 7:1-20
۱-سموئیل 7:1-20 کِتابِ مُقادّس (URD)
اور چُونکہ وہ سال بسال اَیسا ہی کرتا تھا جب وہ خُداوند کے گھر جاتی۔ اِس لِئے فنِنّہ اُسے چھیڑتی تھی چُنانچہ وہ روتی اور کھانا نہ کھاتی تھی۔ سو اُس کے خاوند القانہ نے اُس سے کہا اَے حنّہ تُو کیوں روتی ہے اور کیوں نہیں کھاتی اور تیرا دِل کیوں آزُردہ ہے؟ کیا مَیں تیرے لِئے دس بیٹوں سے بڑھ کر نہیں؟ اور جب وہ سَیلا میں کھا پی چُکے تو حنّہ اُٹھی۔ اُس وقت عیلی کاہِن خُداوند کی ہَیکل کی چَوکھٹ کے پاس کُرسی پر بَیٹھا ہُؤا تھا۔ اور وہ نِہایت دِل گِیر تھی۔ سو وہ خُداوند سے دُعا کرنے اور زار زار رونے لگی۔ اور اُس نے مَنّت مانی اور کہا اَے ربُّ الافواج! اگر تُو اپنی لَونڈی کی مُصِیبت پر نظر کرے اور مُجھے یاد فرمائے اور اپنی لَونڈی کو فراموش نہ کرے اور اپنی لَونڈی کو فرزندِ نرِینہ بخشے تو مَیں اُسے زِندگی بھر کے لِئے خُداوند کو نذر کر دُوں گی اور اُسترہ اُس کے سر پر کبھی نہ پِھرے گا۔ اور جب وہ خُداوند کے حضُور دُعا کر رہی تھی تو عیلی اُس کے مُنہ کو غَور سے دیکھ رہا تھا۔ اور حنّہ تو دِل ہی دِل میں کہہ رہی تھی۔ فقط اُس کے ہونٹ ہِلتے تھے پر اُس کی آواز نہیں سُنائی دیتی تھی۔ پس عیلی کو گُمان ہُؤا کہ وہ نشہ میں ہے۔ سو عیلی نے اُس سے کہا کہ تُو کب تک نشہ میں رہے گی؟ اپنا نشہ اُتار۔ حنّہ نے جواب دِیا نہیں اَے میرے مالِک مَیں تو غمگِین عَورت ہُوں۔ مَیں نے نہ تو مَے نہ کوئی نشہ پِیا پر خُداوند کے آگے اپنا دِل اُنڈیلا ہے۔ تُو اپنی لَونڈی کو خبِیث عَورت نہ سمجھ۔ مَیں تو اپنی فِکروں اور دُکھوں کے ہجُوم کے باعِث اب تک بولتی رہی۔ تب عیلی نے جواب دِیا تُو سلامت جا اور اِسرائیلؔ کا خُدا تیری مُراد جو تُو نے اُس سے مانگی ہے پُوری کرے۔ اُس نے کہا تیری خادِمہ پر تیرے کرم کی نظر ہو۔ تب وہ عَورت چلی گئی اور کھانا کھایا اور پِھر اُس کا چِہرہ اُداس نہ رہا۔ اور صُبح کو وہ سویرے اُٹھے اور خُداوند کے آگے سِجدہ کِیا اور رامہ کو اپنے گھر لَوٹ گئے اور القانہ نے اپنی بِیوی حنّہ سے مُباشرت کی اور خُداوند نے اُسے یاد کِیا۔ اور اَیسا ہُؤا کہ وقت پر حنّہ حامِلہ ہُوئی اور اُس کے بیٹا ہُؤا اور اُس نے اُس کا نام سموئیل رکھّا کیونکہ وہ کہنے لگی مَیں نے اُسے خُداوند سے مانگ کر پایا ہے۔
۱-سموئیل 7:1-20 اُردو ہم عصر ترجُمہ (UCV)
اَور یہ سلسلہ سال بسال چلتا رہا۔ جَب بھی حنّہؔ یَاہوِہ کے گھر جاتی تو اُس کی سوتن اُس کو چھیڑتی یہاں تک کہ وہ رونے لگتی اَور کھانا نہ کھاتی تھی۔ اُس کا خَاوند اِلقانہؔ اُسے کہتا، ”حنّہؔ تُم کیوں رو رہی ہے؟ تُم کھانا کیوں نہیں کھاتی؟ تُم غمگین کیوں ہو؟ کیا مَیں تمہارے لیٔے دس بیٹوں سے بڑھ کر نہیں ہُوں؟“ ایک بار جَب وہ شیلوہؔ میں کھا پی کر فارغ ہُوئے تو حنّہؔ کھڑی ہو گئی۔ اُس وقت عیلیؔ کاہِنؔ یَاہوِہ کے ہیکل کی چوکھٹ کے پاس کُرسی پر بیٹھا ہُوا تھا۔ حنّہؔ کا دِل دُکھ سے بھرا ہُوا تھا۔ وہ رو رو کر یَاہوِہ سے دعا کرنے لگی اَور اُس نے یہ کہتے ہُوئے مَنّت مانی، ”اَے قادرمُطلق یَاہوِہ! اگر آپ اَپنی خادِمہ کی خستہ حالت پر نظر عنایت کریں اَور اُسے فراموش نہ کریں بَلکہ یاد رکھیں اَور اُسے ایک بیٹا بخشیں تو میں اُسے زندگی بھرکے لیٔے یَاہوِہ کی نذر کر دوں گی اَور اُس کے سَر پر کبھی اُسترا نہ پھرے گا۔“ اَور جَب وہ یَاہوِہ سے دعا کر رہی تھی تو عیلیؔ غور سے اُس کا مُنہ دیکھ رہاتھا۔ حنّہؔ دِل ہی دِل میں دعا کر رہی تھی اَور اُس کے ہونٹ ہل رہے تھے مگر اُس کی آواز سُنایٔی نہ دیتی تھی۔ لہٰذا عیلیؔ نے یہ سوچ کر کہ وہ نشہ میں ہے عیلیؔ نے اُس سے کہا، ”تُم کب تک نشہ میں رہوگی؟ مے کو چھوڑ دو۔“ حنّہؔ نے جَواب دیا، ”اَیسا نہیں ہے میرے آقا، میں تو ایک غمزدہ عورت ہُوں۔ مَیں نے مَے یا کویٔی اَور نشہ آور شَے نہیں پی ہے۔ بَلکہ میں تو یَاہوِہ کے آگے اَپنے دِل کا غم کو بَیان کر رہی تھی۔ تُم اِس خادِمہ کو کویٔی بدکار عورت مت سمجھو۔ میں تو اَپنے دُکھ اَور غم کی شِدّت کے باعث یہاں دعا میں لگی ہُوئی تھی۔“ تَب عیلیؔ نے جَواب دیا، ”سلامتی سے رخصت ہو اَور اِسرائیل کا خُدا تمہاری وہ مُراد پُوری کریں جِس کے لیٔے تُم نے اُن سے دعا کی ہے۔“ اُس نے کہا، ”اِس خادِمہ پر آپ کی نظرِکرم ہو۔“ تَب وہ وہاں سے چلی گئی اَور کچھ کھانا کھایا اَور پھر بعد کو اُس کا چہرہ اُداس نہ رہا۔ اگلے دِن صُبح سویرے اُٹھ کر اُنہُوں نے یَاہوِہ کے حُضُور سَجدہ کیا اَور پھر رامہؔ میں اَپنے گھر کو لَوٹ گیٔے۔ پھر اِلقانہؔ اَپنی بیوی حنّہؔ کے ساتھ ہم بِستر ہُوا اَور یَاہوِہ نے اُسے یاد کیا۔ لہٰذا حنّہؔ حاملہ ہُوئی اَور وقت پُورا ہونے پر اُس کے بیٹا پیدا ہُوا۔ اُس نے یہ کہتے ہُوئے، ”مَیں نے اُسے یَاہوِہ سے مانگا ہے اُس کا نام شموایلؔ رکھا۔“
۱-سموئیل 7:1-20 ہولی بائبل کا اردو جیو ورژن (URDGVU)
سال بہ سال ایسا ہی ہوا کرتا تھا۔ جب بھی وہ رب کے مقدِس کے پاس جاتے تو فنِنّہ حنّہ کو اِتنا تنگ کرتی کہ وہ اُس کی باتیں سن سن کر رو پڑتی اور کھا پی نہ سکتی۔ پھر اِلقانہ پوچھتا، ”حنّہ، تُو کیوں رو رہی ہے؟ تُو کھانا کیوں نہیں کھا رہی؟ اُداس ہونے کی کیا ضرورت؟ مَیں تو ہوں۔ کیا یہ دس بیٹوں سے کہیں بہتر نہیں؟“ ایک دن جب وہ سَیلا میں تھے تو حنّہ کھانے پینے کے بعد دعا کرنے کے لئے اُٹھی۔ عیلی امام رب کے مقدِس کے دروازے کے پاس کرسی پر بیٹھا تھا۔ حنّہ شدید پریشانی کے عالم میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ رب سے دعا کرتے کرتے اُس نے قَسم کھائی، ”اے رب الافواج، میری بُری حالت پر نظر ڈال کر مجھے یاد کر! اپنی خادمہ کو مت بھولنا بلکہ بیٹا عطا فرما! اگر تُو ایسا کرے تو مَیں اُسے تجھے واپس کر دوں گی۔ اے رب، اُس کی پوری زندگی تیرے لئے مخصوص ہو گی! اِس کا نشان یہ ہو گا کہ اُس کے بال کبھی نہیں کٹوائے جائیں گے۔“ حنّہ بڑی دیر تک یوں دعا کرتی رہی۔ عیلی اُس کے منہ پر غور کرنے لگا تو دیکھا کہ حنّہ کے ہونٹ تو ہل رہے ہیں لیکن آواز سنائی نہیں دے رہی، کیونکہ حنّہ دل ہی دل میں دعا کر رہی تھی۔ لیکن عیلی کو ایسا لگ رہا تھا کہ وہ نشے میں دُھت ہے، اِس لئے اُس نے اُسے جھڑکتے ہوئے کہا، ”تُو کب تک نشے میں دُھت رہے گی؟ مَے پینے سے باز آ!“ حنّہ نے جواب دیا، ”میرے آقا، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ مَیں نے نہ مَے، نہ کوئی اَور نشہ آور چیز چکھی ہے۔ بات یہ ہے کہ مَیں بڑی رنجیدہ ہوں، اِس لئے رب کے حضور اپنے دل کی آہ و زاری اُنڈیل دی ہے۔ یہ نہ سمجھیں کہ مَیں نکمی عورت ہوں، بلکہ مَیں بڑے غم اور اذیت میں دعا کر رہی تھی۔“ یہ سن کر عیلی نے جواب دیا، ”سلامتی سے اپنے گھر چلی جا! اسرائیل کا خدا تیری درخواست پوری کرے۔“ حنّہ نے کہا، ”اپنی خادمہ پر آپ کی نظرِ کرم ہو۔“ پھر اُس نے جا کر کچھ کھایا، اور اُس کا چہرہ اُداس نہ رہا۔ اگلے دن پورا خاندان صبح سویرے اُٹھا۔ اُنہوں نے مقدِس میں جا کر رب کی پرستش کی، پھر رامہ واپس چلے گئے جہاں اُن کا گھر تھا۔ اور رب نے حنّہ کو یاد کر کے اُس کی دعا سنی۔ اِلقانہ اور حنّہ کے بیٹا پیدا ہوا۔ حنّہ نے اُس کا نام سموایل یعنی ’اُس کا نام اللہ ہے‘ رکھا، کیونکہ اُس نے کہا، ”مَیں نے اُسے رب سے مانگا۔“