۱-کُرِنتِھیوں 14:15-28
۱-کُرِنتِھیوں 14:15-28 کِتابِ مُقادّس (URD)
اور اگر مسِیح نہیں جی اُٹھا تو ہماری مُنادی بھی بے فائِدہ ہے اور تُمہارا اِیمان بھی بے فائِدہ۔ بلکہ ہم خُدا کے جُھوٹے گواہ ٹھہرے کیونکہ ہم نے خُدا کی بابت یہ گواہی دی کہ اُس نے مسِیح کو جِلا دِیا حالانکہ نہیں جِلایا اگر بِالفرض مُردے نہیں جی اُٹھتے۔ اور اگر مُردے نہیں جی اُٹھتے تو مسِیح بھی نہیں جی اُٹھا۔ اور اگر مسِیح نہیں جی اُٹھا تو تُمہارا اِیمان بے فائِدہ ہے تُم اب تک اپنے گُناہوں میں گرِفتار ہو۔ بلکہ جو مسِیح میں سو گئے ہیں وہ بھی ہلاک ہُوئے۔ اگر ہم صِرف اِسی زِندگی میں مسِیح میں اُمّید رکھتے ہیں تو سب آدمِیوں سے زِیادہ بدنصِیب ہیں۔ لیکن فی الواقِع مسِیح مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے اور جو سو گئے ہیں اُن میں پہلا پَھل ہُؤا۔ کیونکہ جب آدمی کے سبب سے مَوت آئی تو آدمی ہی کے سبب سے مُردوں کی قِیامت بھی آئی۔ اور جَیسے آدمؔ میں سب مَرتے ہیں وَیسے ہی مسِیح میں سب زِندہ کِئے جائیں گے۔ لیکن ہر ایک اپنی اپنی باری سے۔ پہلا پَھل مسِیح۔ پِھر مسِیح کے آنے پر اُس کے لوگ۔ اِس کے بعد آخِرت ہو گی۔ اُس وقت وہ ساری حُکُومت اور سارا اِختیار اور قُدرت نیست کر کے بادشاہی کو خُدا یعنی باپ کے حوالہ کر دے گا۔ کیونکہ جب تک کہ وہ سب دُشمنوں کو اپنے پاؤں تلے نہ لے آئے اُس کو بادشاہی کرنا ضرُور ہے۔ سب سے پِچھلا دُشمن جو نیست کِیا جائے گا وہ مَوت ہے۔ کیونکہ خُدا نے سب کُچھ اُس کے پاؤں تَلے کر دِیا ہے مگر جب وہ فرماتا ہے کہ سب کُچھ اُس کے تابِع کر دِیا گیا تو ظاہِر ہے کہ جِس نے سب کُچھ اُس کے تابِع کر دِیا وہ اَلگ رہا۔ اور جب سب کُچھ اُس کے تابِع ہو جائے گا تو بیٹا خُود اُس کے تابِع ہو جائے گا جِس نے سب چِیزیں اُس کے تابِع کر دِیں تاکہ سب میں خُدا ہی سب کُچھ ہو۔
۱-کُرِنتِھیوں 14:15-28 اُردو ہم عصر ترجُمہ (UCV)
اَور اگر المسیؔح زندہ نہیں ہوئے، تو ہماری مُنادی کا کویٔی فائدہ نہیں اَور تمہارا ایمان لانا بھی بے فائدہ ٹھہرا۔ اگر مُردوں کا جی اُٹھنا ممکن نہیں تو گویا خُدا نے المسیؔح کو بھی زندہ نہیں کیا، تو ہماری یہ گواہی کہ اُس نے المسیؔح کو زندہ کیا، جھوٹی ٹھہری۔ اگر مُردے زندہ نہیں ہوتے، تو المسیؔح بھی نہیں جی اُٹھے۔ اَور اگر المسیؔح نہیں جی اُٹھے، تو تمہارا ایمان بے فائدہ ہے؛ اَور تُم ابھی تک اَپنے گُناہوں میں گِرفتارہو۔ بَلکہ جو لوگ المسیؔح میں ہوکر سوگئے وہ بھی ہلاک ہویٔے۔ اگر المسیؔح پر ایمان لانے سے ہماری اُمّید صِرف اِسی زندگی تک محدُود ہے، تو ہم تمام اِنسانوں سے زِیادہ بَدنصیب ہیں۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ المسیؔح مُردوں میں سے جی اُٹھے، لہٰذا جو سو گیٔے ہیں اُن میں پہلا پھل ہویٔے۔ کیونکہ جَب اِنسان کے ذریعہ موت آئی، تو اِنسان ہی کے ذریعہ سے مُردوں کی قیامت بھی آئی۔ اَور جَیسے آدمؔ میں سَب اِنسان مَرتے ہیں، وَیسے ہی المسیؔح میں سَب زندہ کیٔے جایٔیں گے۔ لیکن ہر ایک اَپنی اَپنی باری کے مُطابق: سَب سے پہلے المسیؔح؛ پھر المسیؔح کے لَوٹنے پر، اُن کے لوگ۔ اُس کے بعد آخِرت ہوگی، اُس وقت المسیؔح ساری حُکومت، کُل اِختیّار اَور قُدرت نِیست کرکے سلطنت خُدا باپ کے حوالہ کر دیں گے۔ کیونکہ اَپنے سارے دُشمنوں کو اَپنے قدموں کے نیچے نہ لے آنے تک المسیؔح کا سلطنت کرنا لازِم ہے۔ آخِری دُشمن جو نِیست کیا جائے گا وہ موت ہے۔ لہٰذا، جَب کِتاب مُقدّس کا فرمان ہے: ”خُدا نے سَب کچھ اُن کے قدموں کے نیچے کر دیا ہے۔“ اَور ”سَب کچھ اُن کے تابع کر دیا گیا“ یہ تو ظاہر ہے کہ خُدا اِس میں شامل نہ رہا، جِس نے ہر چیز کو المسیؔح کے تابع کر دیا ہے۔ اَور جَب سَب کچھ خُدا کے تابع ہو جائے گا تو بیٹا خُود بھی اُس کے تابع ہو جائے گا جِس نے سَب چیزیں بیٹے کے تابع کر دیں تاکہ خُدا ہی سَب میں سَب کچھ ہے۔
۱-کُرِنتِھیوں 14:15-28 ہولی بائبل کا اردو جیو ورژن (URDGVU)
اور اگر مسیح جی نہیں اُٹھا تو پھر ہماری منادی عبث ہوتی اور آپ کا ایمان لانا بھی بےفائدہ ہوتا۔ نیز ہم اللہ کے بارے میں جھوٹے گواہ ثابت ہوتے۔ کیونکہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ نے مسیح کو زندہ کیا جبکہ اگر واقعی مُردے نہیں جی اُٹھتے تو وہ بھی زندہ نہیں ہوا۔ غرض اگر مُردے جی نہیں اُٹھتے تو پھر مسیح بھی نہیں جی اُٹھا۔ اور اگر مسیح نہیں جی اُٹھا تو آپ کا ایمان بےفائدہ ہے اور آپ اب تک اپنے گناہوں میں گرفتار ہیں۔ ہاں، اِس کے مطابق جنہوں نے مسیح میں ہوتے ہوئے انتقال کیا ہے وہ سب ہلاک ہو گئے ہیں۔ چنانچہ اگر مسیح پر ہماری اُمید صرف اِسی زندگی تک محدود ہے تو ہم انسانوں میں سب سے زیادہ قابلِ رحم ہیں۔ لیکن مسیح واقعی مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے۔ وہ انتقال کئے ہوؤں کی فصل کا پہلا پھل ہے۔ چونکہ انسان کے وسیلے سے موت آئی، اِس لئے انسان ہی کے وسیلے سے مُردوں کے جی اُٹھنے کی بھی راہ کھلی۔ جس طرح سب اِس لئے مرتے ہیں کہ وہ آدم کے فرزند ہیں اُسی طرح سب زندہ کئے جائیں گے جو مسیح کے ہیں۔ لیکن جی اُٹھنے کی ایک ترتیب ہے۔ مسیح تو فصل کے پہلے پھل کی حیثیت سے جی اُٹھ چکا ہے جبکہ اُس کے لوگ اُس وقت جی اُٹھیں گے جب وہ واپس آئے گا۔ اِس کے بعد خاتمہ ہو گا۔ تب ہر حکومت، اختیار اور قوت کو نیست کر کے وہ بادشاہی کو خدا باپ کے حوالے کر دے گا۔ کیونکہ لازم ہے کہ مسیح اُس وقت تک حکومت کرے جب تک اللہ تمام دشمنوں کو اُس کے پاؤں کے نیچے نہ کر دے۔ آخری دشمن جسے نیست کیا جائے گا موت ہو گی۔ کیونکہ اللہ کے بارے میں کلامِ مُقدّس میں لکھا ہے، ”اُس نے سب کچھ اُس (یعنی مسیح) کے پاؤں کے نیچے کر دیا۔“ جب کہا گیا ہے کہ سب کچھ مسیح کے ماتحت کر دیا گیا ہے، تو ظاہر ہے کہ اِس میں اللہ شامل نہیں جس نے سب کچھ مسیح کے ماتحت کیا ہے۔ جب سب کچھ مسیح کے ماتحت کر دیا گیا تب فرزند خود بھی اُسی کے ماتحت ہو جائے گا جس نے سب کچھ اُس کے ماتحت کیا۔ یوں اللہ سب میں سب کچھ ہو گا۔