۱-کُرِنتِھیوں 1:14-20
۱-کُرِنتِھیوں 1:14-20 کِتابِ مُقادّس (URD)
مُحبّت کے طالِب ہو اور رُوحانی نِعمتوں کی بھی آرزُو رکھّو۔ خصُوصاً اِس کی کہ نبُوّت کرو۔ کیونکہ جو بیگانہ زُبان میں باتیں کرتا ہے وہ آدمِیوں سے باتیں نہیں کرتا بلکہ خُدا سے اِس لِئے کہ اُس کی کوئی نہیں سمجھتا حالانکہ وہ اپنی رُوح کے وسِیلہ سے بھید کی باتیں کہتا ہے۔ لیکن جو نبُوّت کرتا ہے وہ آدمِیوں سے ترقّی اور نصِیحت اور تسلّی کی باتیں کہتا ہے۔ جو بیگانہ زُبان میں باتیں کرتا ہے وہ اپنی ترقّی کرتا ہے اور جو نُبوّت کرتا ہے وہ کلِیسیا کی ترقّی کرتا ہے۔ اگرچہ مَیں یہ چاہتا ہُوں کہ تُم سب بیگانہ زُبانوں میں باتیں کرو لیکن زیادہ تر یِہی چاہتا ہُوں کہ نبُوّت کرو اور اگر بیگانہ زُبانیں بولنے والا کلِیسیا کی ترقّی کے لِئے تَرجُمہ نہ کرے تو نبُوّت کرنے والا اُس سے بڑا ہے۔ پس اَے بھائِیو! اگر مَیں تُمہارے پاس آ کر بیگانہ زُبانوں میں باتیں کرُوں اور مُکاشفہ یا عِلم یا نبُوّت یا تعلِیم کی باتیں تُم سے نہ کہُوں تو تُم کو مُجھ سے کیا فائِدہ ہو گا؟ چُنانچہ بے جان چِیزوں میں بھی جِن سے آواز نِکلتی ہے مثلاً بانسری یا بربط اگر اُن کی آوازوں میں فرق نہ ہو تو جو پُھونکا یا بجایا جاتا ہے وہ کیوں کر پہچانا جائے؟ اور اگر تُرہی کی آواز صاف نہ ہو تو کون لڑائی کے لِئے تیّاری کرے گا؟ اَیسے ہی تُم بھی اگر زُبان سے واضِح بات نہ کہو تو جو کہا جاتا ہے کیوں کر سمجھا جائے گا؟ تُم ہوا سے باتیں کرنے والے ٹھہرو گے۔ دُنیا میں خواہ کِتنی ہی مُختلِف زُبانیں ہوں اُن میں سے کوئی بھی بے معنی نہ ہو گی۔ پس اگر مَیں کِسی زُبان کے معنی نہ سمجھُوں تو بولنے والے کے نزدِیک مَیں اجنبی ٹھہرُوں گا اور بولنے والا میرے نزدِیک اجنبی ٹھہرے گا۔ پس تُم جب رُوحانی نِعمتوں کی آرزُو رکھتے ہو تو اَیسی کوشِش کرو کہ تُمہاری نِعمتوں کی افزُونی سے کلِیسیا کی ترقّی ہو۔ اِس سبب سے جو بیگانہ زُبان میں باتیں کرتا ہے وہ دُعا کرے کہ تَرجُمہ بھی کر سکے۔ اِس لِئے کہ اگر مَیں کِسی بیگانہ زُبان میں دُعا کرُوں تو میری رُوح تو دُعا کرتی ہے مگر میری عقل بیکار ہے۔ پس کیا کرنا چاہئے؟ مَیں رُوح سے بھی دُعا کرُوں گا اور عقل سے بھی دُعا کرُوں گا۔ رُوح سے بھی گاؤُں گا اور عقل سے بھی گاؤُں گا۔ ورنہ اگر تُو رُوح ہی سے حمد کرے گا تو ناواقِف آدمی تیری شُکرگُذاری پر آمِین کیوں کر کہے گا؟ اِس لِئے کہ وہ نہیں جانتا کہ تُو کیا کہتا ہے۔ تُو تو بیشک اچھّی طرح سے شُکر کرتا ہے مگر دُوسرے کی ترقّی نہیں ہوتی۔ مَیں خُدا کا شُکر کرتا ہُوں کہ تُم سب سے زِیادہ زُبانیں بولتا ہُوں۔ لیکن کلِیسیا میں بیگانہ زُبان میں دس ہزار باتیں کہنے سے مُجھے یہ زِیادہ پسند ہے کہ اَوروں کی تعلِیم کے لِئے پانچ ہی باتیں عقل سے کہُوں۔ اَے بھائِیو! تُم سمجھ میں بچّے نہ بنو۔ بدی میں تو بچّے رہو مگر سمجھ میں جوان بنو۔
۱-کُرِنتِھیوں 1:14-20 اُردو ہم عصر ترجُمہ (UCV)
مَحَبّت کے طالب رہو اَور رُوحانی نِعمتوں کے حاصل کرنے کا بھی شوق رکھو، خاص طور پر نبُوّت کرنے کی نِعمت کا۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ جو کسی اجنبی زبان میں کلام کرتا ہے وہ اِنسان سے نہیں بَلکہ خُدا سے ہم کلام ہوتاہے کیونکہ اُس کی بات کویٔی نہیں سمجھتا؛ وہ پاک رُوح کی قُدرت سے راز کی باتیں کرتا ہے۔ لیکن جو نبُوّت کرتا ہے وہ لوگوں سے اُن کی ترقّی، نصیحت اَور تسلّی کی باتیں کرتا ہے۔ جو کسی اجنبی زبان میں کلام کرتا ہے وہ اَپنے ہی فائدہ کے لیٔے اَیسا کرتا ہے، مگر جو نبُوّت کرتا ہے وہ جماعت کی بھلائی کے لیٔے اَیسا کرتا ہے۔ اگرچہ میری یہ خواہش ہے کہ تُم سَب کے سَب اجنبی زبانوں میں کلام کرو لیکن اِس سے زِیادہ بہتر یہ ہے کہ تُم نبُوّت کرو۔ کیونکہ جو اجنبی زبانیں بولتا ہے، اگر وہ جماعت کی ترقّی کے خیال سے اُن کا ترجُمہ نہ کرے تو نبُوّت کرنے والا اُس سے بڑا ہے۔ پس، اَے بھائیو اَور بہنوں! اگر مَیں تمہارے پاس آکر اجنبی زبانوں میں کلام کروں لیکن تُم سے کسی مُکاشفہ یا علم یا نبُوّت یا تعلیم کی باتیں نہ کہُوں تو تُمہیں مُجھ سے کیا فائدہ ہوگا؟ اگر بانسری یا بربط اَیسے بے جان سازوں کو بجاتے وقت اُن کے سُر صَاف صَاف نہ نکلیں تو جو راگ بجایا جا رہاہے اُسے کون پہچان سکےگا؟ اگر تُرہی کی آواز صَاف صَاف سُنایٔی نہ دے تو کون جنگ کے لیٔے تیّار ہوگا؟ وَیسے ہی اگر تُم زبان سے صَاف صَاف بات نہ کہو گے تو کون تمہاری سمجھے گا؟ سُننے والے سوچیں گے کہ تُم ہَوا سے باتیں کر رہے ہو۔ دُنیا میں بے شُمار زبانیں پائی جاتی ہیں اَور اُن میں سے کویٔی بھی بے معنی نہیں۔ لیکن اگر مَیں کسی زبان کو سمجھ نہ سکوں تو میں اُس زبان کے بولنے والے کی نظر میں اجنبی ٹھہروں گا اَور وہ بولنے والا بھی میری نظر میں اجنبی ٹھہرے گا۔ اِسی طرح جَب تُم رُوحانی نِعمتوں کے پانے کی آرزُو کرو تو کوشش کرو کہ تمہاری رُوحانی نِعمتوں کے اِضافہ سے جماعت کی ترقّی ہو۔ چنانچہ وہ جو کسی اجنبی زبان میں کلام کرتا ہے دعا کرے کہ وہ اُس کا ترجُمہ بھی کر سکے۔ کیونکہ اگر مَیں کسی اجنبی زبان میں دعا کروں تو میری رُوح تو دعا کرتی ہے مگر میری عقل بیکار رہتی ہے۔ لہٰذا مُجھے کیا کرنا چاہئے؟ میں اَپنی رُوح سے دعا کروں گا، لیکن مَیں اَپنی عقل سے بھی دعا کروں گا، میں اَپنی رُوح سے حَمد کے نغمہ گاؤں گا، لیکن مَیں اَپنی عقل سے بھی گاؤں گا۔ اگر تُم صِرف رُوح ہی سے خُدا کی تعریف کرو، تو ناواقِف شخص تیری شُکر گُزاری پر، کیسے، ”آمین“ کہے گا؟ کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ تُم کیا کہہ رہے ہو۔ تُم تو بے شک خُدا کا شُکر اَدا کرتے ہو جو اَچھّی بات ہے لیکن اِس سے دُوسرے کی ترقّی نہیں ہوتی۔ میں خُدا کا شُکر اَدا کرتا ہُوں کہ میں تُم میں سَب سے زِیادہ غَیر زبانیں بولتا ہُوں۔ لیکن جماعت میں کسی غَیر زبان میں دس ہزار باتیں کہنے سے مُجھے یہ زِیادہ پسند ہے کہ اَوروں کی تعلیم کے لیٔے صِرف پانچ باتیں عقل سے کہُوں۔ اَے بھائیو اَور بہنوں! تُم عقل کے لِحاظ سے بچّے نہ بنے رہو۔ ہاں، بدی کے لِحاظ سے تو معصُوم بچّے بنے رہو لیکن عقل کے لِحاظ سے، اَپنے آپ کو بالغ ثابت کرو۔
۱-کُرِنتِھیوں 1:14-20 ہولی بائبل کا اردو جیو ورژن (URDGVU)
محبت کا دامن تھامے رکھیں۔ لیکن ساتھ ہی روحانی نعمتوں کو سرگرمی سے استعمال میں لائیں، خصوصاً نبوّت کی نعمت کو۔ غیرزبان بولنے والا لوگوں سے نہیں بلکہ اللہ سے بات کرتا ہے۔ کوئی اُس کی بات نہیں سمجھتا کیونکہ وہ روح میں بھید کی باتیں کرتا ہے۔ اِس کے برعکس نبوّت کرنے والا لوگوں سے ایسی باتیں کرتا ہے جو اُن کی تعمیر و ترقی، حوصلہ افزائی اور تسلی کا باعث بنتی ہیں۔ غیرزبان بولنے والا اپنی تعمیر و ترقی کرتا ہے جبکہ نبوّت کرنے والا جماعت کی۔ مَیں چاہتا ہوں کہ آپ سب غیرزبانیں بولیں، لیکن اِس سے زیادہ یہ خواہش رکھتا ہوں کہ آپ نبوّت کریں۔ نبوّت کرنے والا غیرزبانیں بولنے والے سے اہم ہے۔ ہاں، غیرزبانیں بولنے والا بھی اہم ہے بشرطیکہ اپنی زبان کا ترجمہ کرے، کیونکہ اِس سے خدا کی جماعت کی تعمیر و ترقی ہوتی ہے۔ بھائیو، اگر مَیں آپ کے پاس آ کر غیرزبانیں بولوں، لیکن مکاشفے، علم، نبوّت اور تعلیم کی کوئی بات نہ کروں تو آپ کو کیا فائدہ ہو گا؟ بےجان سازوں پر غور کرنے سے بھی یہی بات سامنے آتی ہے۔ اگر بانسری یا سرود کو کسی خاص سُر کے مطابق نہ بجایا جائے تو پھر سننے والے کس طرح پہچان سکیں گے کہ اِن پر کیا کیا پیش کیا جا رہا ہے؟ اِسی طرح اگر بِگل کی آواز جنگ کے لئے تیار ہو جانے کے لئے صاف طور سے نہ بجے تو کیا فوجی کمربستہ ہو جائیں گے؟ اگر آپ صاف صاف بات نہ کریں تو آپ کی حالت بھی ایسی ہی ہو گی۔ پھر آپ کی بات کون سمجھے گا؟ کیونکہ آپ لوگوں سے نہیں بلکہ ہَوا سے باتیں کریں گے۔ اِس دنیا میں بہت زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں اور اِن میں سے کوئی بھی نہیں جو بےمعنی ہو۔ اگر مَیں کسی زبان سے واقف نہیں تو مَیں اُس زبان میں بولنے والے کے نزدیک اجنبی ٹھہروں گا اور وہ میرے نزدیک۔ یہ اصول آپ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ چونکہ آپ روحانی نعمتوں کے لئے تڑپتے ہیں تو پھر خاص کر اُن نعمتوں میں ماہر بننے کی کوشش کریں جو خدا کی جماعت کو تعمیر کرتی ہیں۔ چنانچہ غیرزبان بولنے والا دعا کرے کہ اِس کا ترجمہ بھی کر سکے۔ کیونکہ اگر مَیں غیرزبان میں دعا کروں تو میری روح تو دعا کرتی ہے مگر میری عقل بےعمل رہتی ہے۔ تو پھر کیا کروں؟ مَیں روح میں دعا کروں گا، لیکن عقل کو بھی استعمال کروں گا۔ مَیں روح میں حمد و ثنا کروں گا، لیکن عقل کو بھی استعمال میں لاؤں گا۔ اگر آپ صرف روح میں حمد و ثنا کریں تو حاضرین میں سے جو آپ کی بات نہیں سمجھتا وہ کس طرح آپ کی شکرگزاری پر ”آمین“ کہہ سکے گا؟ اُسے تو آپ کی باتوں کی سمجھ ہی نہیں آئی۔ بےشک آپ اچھی طرح خدا کا شکر کر رہے ہوں گے، لیکن اِس سے دوسرے شخص کی تعمیر و ترقی نہیں ہو گی۔ مَیں خدا کا شکر کرتا ہوں کہ آپ سب کی نسبت زیادہ غیرزبانوں میں بات کرتا ہوں۔ پھر بھی مَیں خدا کی جماعت میں ایسی باتیں پیش کرنا چاہتا ہوں جو دوسرے سمجھ سکیں اور جن سے وہ تربیت حاصل کر سکیں۔ کیونکہ غیرزبانوں میں بولی گئی بےشمار باتوں کی نسبت پانچ تربیت دینے والے الفاظ کہیں بہتر ہیں۔ بھائیو، بچوں جیسی سوچ سے باز آئیں۔ بُرائی کے لحاظ سے تو ضرور بچے بنے رہیں، لیکن سمجھ میں بالغ بن جائیں۔
۱-کُرِنتِھیوں 1:14-20 کِتابِ مُقادّس (URD)
مُحبّت کے طالِب ہو اور رُوحانی نِعمتوں کی بھی آرزُو رکھّو۔ خصُوصاً اِس کی کہ نبُوّت کرو۔ کیونکہ جو بیگانہ زُبان میں باتیں کرتا ہے وہ آدمِیوں سے باتیں نہیں کرتا بلکہ خُدا سے اِس لِئے کہ اُس کی کوئی نہیں سمجھتا حالانکہ وہ اپنی رُوح کے وسِیلہ سے بھید کی باتیں کہتا ہے۔ لیکن جو نبُوّت کرتا ہے وہ آدمِیوں سے ترقّی اور نصِیحت اور تسلّی کی باتیں کہتا ہے۔ جو بیگانہ زُبان میں باتیں کرتا ہے وہ اپنی ترقّی کرتا ہے اور جو نُبوّت کرتا ہے وہ کلِیسیا کی ترقّی کرتا ہے۔ اگرچہ مَیں یہ چاہتا ہُوں کہ تُم سب بیگانہ زُبانوں میں باتیں کرو لیکن زیادہ تر یِہی چاہتا ہُوں کہ نبُوّت کرو اور اگر بیگانہ زُبانیں بولنے والا کلِیسیا کی ترقّی کے لِئے تَرجُمہ نہ کرے تو نبُوّت کرنے والا اُس سے بڑا ہے۔ پس اَے بھائِیو! اگر مَیں تُمہارے پاس آ کر بیگانہ زُبانوں میں باتیں کرُوں اور مُکاشفہ یا عِلم یا نبُوّت یا تعلِیم کی باتیں تُم سے نہ کہُوں تو تُم کو مُجھ سے کیا فائِدہ ہو گا؟ چُنانچہ بے جان چِیزوں میں بھی جِن سے آواز نِکلتی ہے مثلاً بانسری یا بربط اگر اُن کی آوازوں میں فرق نہ ہو تو جو پُھونکا یا بجایا جاتا ہے وہ کیوں کر پہچانا جائے؟ اور اگر تُرہی کی آواز صاف نہ ہو تو کون لڑائی کے لِئے تیّاری کرے گا؟ اَیسے ہی تُم بھی اگر زُبان سے واضِح بات نہ کہو تو جو کہا جاتا ہے کیوں کر سمجھا جائے گا؟ تُم ہوا سے باتیں کرنے والے ٹھہرو گے۔ دُنیا میں خواہ کِتنی ہی مُختلِف زُبانیں ہوں اُن میں سے کوئی بھی بے معنی نہ ہو گی۔ پس اگر مَیں کِسی زُبان کے معنی نہ سمجھُوں تو بولنے والے کے نزدِیک مَیں اجنبی ٹھہرُوں گا اور بولنے والا میرے نزدِیک اجنبی ٹھہرے گا۔ پس تُم جب رُوحانی نِعمتوں کی آرزُو رکھتے ہو تو اَیسی کوشِش کرو کہ تُمہاری نِعمتوں کی افزُونی سے کلِیسیا کی ترقّی ہو۔ اِس سبب سے جو بیگانہ زُبان میں باتیں کرتا ہے وہ دُعا کرے کہ تَرجُمہ بھی کر سکے۔ اِس لِئے کہ اگر مَیں کِسی بیگانہ زُبان میں دُعا کرُوں تو میری رُوح تو دُعا کرتی ہے مگر میری عقل بیکار ہے۔ پس کیا کرنا چاہئے؟ مَیں رُوح سے بھی دُعا کرُوں گا اور عقل سے بھی دُعا کرُوں گا۔ رُوح سے بھی گاؤُں گا اور عقل سے بھی گاؤُں گا۔ ورنہ اگر تُو رُوح ہی سے حمد کرے گا تو ناواقِف آدمی تیری شُکرگُذاری پر آمِین کیوں کر کہے گا؟ اِس لِئے کہ وہ نہیں جانتا کہ تُو کیا کہتا ہے۔ تُو تو بیشک اچھّی طرح سے شُکر کرتا ہے مگر دُوسرے کی ترقّی نہیں ہوتی۔ مَیں خُدا کا شُکر کرتا ہُوں کہ تُم سب سے زِیادہ زُبانیں بولتا ہُوں۔ لیکن کلِیسیا میں بیگانہ زُبان میں دس ہزار باتیں کہنے سے مُجھے یہ زِیادہ پسند ہے کہ اَوروں کی تعلِیم کے لِئے پانچ ہی باتیں عقل سے کہُوں۔ اَے بھائِیو! تُم سمجھ میں بچّے نہ بنو۔ بدی میں تو بچّے رہو مگر سمجھ میں جوان بنو۔