۱-کُرِنتِھیوں 1:13-13
۱-کُرِنتِھیوں 1:13-13 اُردو ہم عصر ترجُمہ (UCV)
اگرمیں اِنسانوں اَور فرشتوں کی زبانیں بولوں لیکن مَحَبّت سے خالی رہُوں تو میں ٹھنٹھناتے ہویٔے پیتل یا جھَنجھَناتی ہُوئی جھانجھ کی مانِند ہُوں۔ اگر مُجھے نبُوّت کرنے کی نِعمت مِل جائے اَور میں ہر راز اَور ہر علم سے واقف ہو جاؤں اَور میرا ایمان اِتنا کامِل ہو کہ پہاڑوں کو سَرکا دُوں، لیکن مَحَبّت سے خالی رہُوں، تو میں کچھ بھی نہیں۔ اَور اگر اَپنا سارا مال غریبوں میں بانٹ دُوں اَور اَپنا بَدن قُربانی کے طور پر جلائے جانے کے لیٔے دے دُوں اَور مَحَبّت سے خالی رہُوں تو مُجھے کویٔی فائدہ نہیں۔ مَحَبّت صَابر اَور مہربان ہوتی ہے۔ حَسد نہیں کرتی، شیخی نہیں مارتی، گھمنڈ نہیں کرتی۔ بَدتمیزی نہیں کرتی، خُود غرض نہیں ہوتی، طیش میں نہیں آتی، بدگُمانی نہیں کرتی۔ مَحَبّت ناراستی سے خُوش نہیں ہوتی ہے بَلکہ راستی سے خُوش ہوتی ہے۔ سَب کا پردہ رکھتی ہے، ہمیشہ بھروسہ کرتی ہے، ہمیشہ اُمّید رکھتی ہے، ہمیشہ برداشت سے کام لیتی ہے۔ مَحَبّت لازوال ہے۔ نبوّتیں موقُوف ہو جایٔیں گی؛ زبانیں جاتی رہیں گی؛ علم مِٹ جائے گا۔ کیونکہ ہمارا علم ناقِص ہے اَور ہماری نبُوّت ناتمام، لیکن جَب کامِل آئے گا تو ناقِص جاتا رہے گا۔ جَب میں بچّہ تھا تو بچّے کی طرح بولتا تھا، بچّے کی سِی سوچ رکھتا تھا۔ لیکن جَب جَوان ہُوا تو بچپن کی باتیں چھوڑ دیں۔ اِس وقت تو ہمیں آئینہ میں دھُندلا سا دکھائی دیتاہے لیکن اُس وقت رُوبرُو دیکھیں گے۔ اِس وقت میرا علم ناقِص ہے مگر اُس وقت میں پُورے طور پر پہچان لُوں گا، جَیسے میں پہچانا گیا ہُوں۔ غرض ایمان، اُمّید اَور مَحَبّت یہ تینوں دائمی ہیں لیکن مَحَبّت اِن میں افضل ہے۔
۱-کُرِنتِھیوں 1:13-13 ہولی بائبل کا اردو جیو ورژن (URDGVU)
اگر مَیں انسانوں اور فرشتوں کی زبانیں بولوں، لیکن محبت نہ رکھوں تو پھر مَیں بس گونجتا ہوا گھڑیال یا ٹھنٹھناتی ہوئی جھانجھ ہی ہوں۔ اگر میری نبوّت کی نعمت ہو اور مجھے تمام بھیدوں اور ہر علم سے واقفیت ہو، ساتھ ہی میرا ایسا ایمان ہو کہ پہاڑوں کو کھسکا سکوں، لیکن میرا دل محبت سے خالی ہو تو مَیں کچھ بھی نہیں۔ اگر مَیں اپنا سارا مال غریبوں میں تقسیم کر دوں بلکہ اپنا بدن جلائے جانے کے لئے دے دوں، لیکن میرا دل محبت سے خالی ہو تو مجھے کچھ فائدہ نہیں۔ محبت صبر سے کام لیتی ہے، محبت مہربان ہے۔ نہ یہ حسد کرتی ہے نہ ڈینگیں مارتی ہے۔ یہ پھولتی بھی نہیں۔ محبت بدتمیزی نہیں کرتی نہ اپنے ہی فائدے کی تلاش میں رہتی ہے۔ یہ جلدی سے غصے میں نہیں آ جاتی اور دوسروں کی غلطیوں کا ریکارڈ نہیں رکھتی۔ یہ ناانصافی دیکھ کر خوش نہیں ہوتی بلکہ سچائی کے غالب آنے پر ہی خوشی مناتی ہے۔ یہ ہمیشہ دوسروں کی کمزوریاں برداشت کرتی ہے، ہمیشہ اعتماد کرتی ہے، ہمیشہ اُمید رکھتی ہے، ہمیشہ ثابت قدم رہتی ہے۔ محبت کبھی ختم نہیں ہوتی۔ اِس کے مقابلے میں نبوّتیں ختم ہو جائیں گی، غیرزبانیں جاتی رہیں گی، علم مٹ جائے گا۔ کیونکہ اِس وقت ہمارا علم نامکمل ہے اور ہماری نبوّت سب کچھ ظاہر نہیں کرتی۔ لیکن جب وہ کچھ آئے گا جو کامل ہے تو یہ ادھوری چیزیں جاتی رہیں گی۔ جب مَیں بچہ تھا تو بچے کی طرح بولتا، بچے کی سی سوچ رکھتا اور بچے کی سی سمجھ سے کام لیتا تھا۔ لیکن اب مَیں بالغ ہوں، اِس لئے مَیں نے بچے کا سا انداز چھوڑ دیا ہے۔ اِس وقت ہمیں آئینے میں دُھندلا سا دکھائی دیتا ہے، لیکن اُس وقت ہم رُوبرُو دیکھیں گے۔ اب مَیں جزوی طور پر جانتا ہوں، لیکن اُس وقت کامل طور سے جان لوں گا، ایسے ہی جیسے اللہ نے مجھے پہلے سے جان لیا ہے۔ غرض ایمان، اُمید اور محبت تینوں قائم رہتے ہیں، لیکن اِن میں افضل محبت ہے۔
۱-کُرِنتِھیوں 1:13-13 کِتابِ مُقادّس (URD)
اگر مَیں آدمِیوں اور فرِشتوں کی زُبانیں بولُوں اور مُحبّت نہ رکھُّوں تو مَیں ٹھنٹھناتا پِیتل یا جھنجھناتی جَھانجھ ہُوں۔ اور اگر مُجھے نبُوّت مِلے اور سب بھیدوں اور کُل عِلم کی واقفِیت ہو اور میرا اِیمان یہاں تک کامِل ہو کہ پہاڑوں کو ہٹا دُوں اور مُحبّت نہ رکھُّوں تو مَیں کُچھ بھی نہیں۔ اور اگر اپنا سارا مال غرِیبوں کو کِھلا دُوں یا اپنا بدن جلانے کو دے دُوں اور مُحبّت نہ رکھُّوں تو مُجھے کُچھ بھی فائِدہ نہیں۔ مُحبّت صابِر ہے اور مِہربان۔ مُحبّت حَسد نہیں کرتی۔ مُحبّت شَیخی نہیں مارتی اور پُھولتی نہیں۔ نازیبا کام نہیں کرتی۔ اپنی بِہتری نہیں چاہتی۔ جُھنجھلاتی نہیں۔ بدگُمانی نہیں کرتی۔ بدکاری سے خُوش نہیں ہوتی بلکہ راستی سے خُوش ہوتی ہے۔ سب کُچھ سہہ لیتی ہے۔ سب کُچھ یقِین کرتی ہے۔ سب باتوں کی اُمّید رکھتی ہے۔ سب باتوں کی برداشت کرتی ہے۔ مُحبّت کو زوال نہیں۔ نبُوّتیں ہوں تو مَوقُوف ہو جائیں گی۔ زُبانیں ہوں تو جاتی رہیں گی۔ عِلم ہو تو مِٹ جائے گا۔ کیونکہ ہمارا عِلم ناقِص ہے اور ہماری نبُوّت ناتمام۔ لیکن جب کامِل آئے گا تو ناقِص جاتا رہے گا۔ جب مَیں بچّہ تھا تو بچّوں کی طرح بولتا تھا۔ بچّوں کی سی طبِیعت تھی۔ بچّوں کی سی سمجھ تھی۔ لیکن جب جوان ہُؤا تو بچپن کی باتیں ترک کر دِیں۔ اب ہم کو آئینہ میں دُھندلا سا دِکھائی دیتا ہے مگر اُس وقت رُوبرُو دیکھیں گے۔ اِس وقت میرا عِلم ناقِص ہے مگر اُس وقت اَیسے پُورے طَور پر پہچانُوں گا جَیسے مَیں پہچانا گیا ہُوں۔ غرض اِیمان اُمّید مُحبّت یہ تِینوں دائِمی ہیں مگر افضل اِن میں مُحبّت ہے۔