پیدائش 1:41-57

پیدائش 1:41-57 UCV

پُورے دو بَرس بعد فَرعوہؔ نے ایک خواب دیکھا: وہ دریائے نیل کے کنارے کھڑا ہے۔ اَور دریائے نیل میں سے سات خُوبصورت موٹی تازہ گائیں نکل آئیں اَور کنارے کنارے سَرکنڈوں کے کھیت میں چرنے لگیں۔ اُن کے بعد سات بدشکل اَور دبلی پتلی گائیں دریائے نیل میں سے اَور نکلیں اَور اُن کے پاس جا کھڑی ہُوئیں جو دریا کے کنارے پر تھیں۔ اَور یہ بدشکل اَور دبلی پتلی گائیں اُن سات موٹی تازہ گایوں کو کھا گئیں۔ اِس پر فَرعوہؔ کی آنکھ کھُل گئی۔ وہ پھر سو گیا اَور اُس نے دُوسرا خواب دیکھا: ایک ڈنٹھل میں دانوں سے بھری ہُوئی سات موٹی اَور اَچھّی اَچھّی بالیں نکلیں۔ اُس کے بعد سات اَور بالیں پھوٹ نکلیں جو پتلی اَور پُوربی ہَوا کی ماری ہُوئی تھیں۔ یہ سات پتلی بالیں اُن سات موٹی اَور دانوں سے بھری ہُوئی بالوں کو ہڑپ کر گئیں۔ اِس پر فَرعوہؔ کی آنکھ کھُل گئی اَور اُسے مَعلُوم ہُوا کہ یہ خواب تھا۔ جَب صُبح ہُوئی تو وہ دماغ بڑا پریشان ہُوا اَور اُس نے مِصر کے سَب جادُوگروں اَور دانِشوروں کو بُلوا بھیجا۔ فَرعوہؔ نے اَپنے خواب اُنہیں بتائے لیکن کویٔی بھی اُسے اُن کی تعبیر نہ بتا سَکا۔ تَب ساقیوں کے سردار نے فَرعوہؔ سے کہا، ”آج مُجھے اَپنی خامیاں یاد آئیں۔ ایک دفعہ فَرعوہؔ اَپنے خادِموں سے ناراض ہویٔے تھے تو اُنہُوں نے مُجھے اَور نانبائیوں کے سردار کو پہرےداروں کے سردار کے گھر میں نظر بند کروا دیا تھا۔ ہم میں سے ہر ایک نے ایک ہی رات میں ایک ایک خواب دیکھا اَور ہر خواب کی اَپنی اَپنی الگ تعبیر تھی۔ قَیدخانہ میں ایک عِبری جَوان ہمارے ساتھ تھا جو پہرےداروں کے سردار کا خادِم تھا۔ ہم نے اُسے اَپنے خواب بتائے اَور اُس نے ہمیں ہمارے اَپنے اَپنے خواب کی تعبیر بتا دی۔ اَورجو تعبیر اُس نے بتایٔی تھی وَیسا ہی ہُوا یعنی میں اَپنے منصب پر بحال کیا گیا اَور اُس دُوسرے شخص کو پھانسی دی گئی۔“ تَب فَرعوہؔ نے یُوسیفؔ کو بُلوایا۔ قَیدخانہ کی کوٹھری سے رِہائی پاتے ہی یُوسیفؔ نے حجامت بنوائی کپڑے بدلے اَور فَرعوہؔ کے سامنے پہُنچے۔ فَرعوہؔ نے یُوسیفؔ سے کہا، ”مَیں نے ایک خواب دیکھاہے، جِس کی تعبیر کویٔی نہیں کر سَکتا لیکن مَیں نے تمہارے متعلّق سُنا ہے کہ تُم خواب کو سُن کر اُس کی تعبیر بتا سکتے ہو۔“ یُوسیفؔ نے فَرعوہؔ کو جَواب دیا، ”میں تو تعبیر نہیں بتا سَکتا البتّہ خُدا ہی فَرعوہؔ کو تسلّی بخش جَواب دیں گے۔“ تَب فَرعوہؔ نے یُوسیفؔ سے کہا، ”مَیں نے خواب میں دیکھا کہ میں دریائے نیل کے کنارے کھڑا ہُوں۔“ اَور دریائے نیل میں سے سات موٹی تازہ گائیں نکل آئیں اَور سَرکنڈوں کے کھیت میں چرنے لگیں۔ اُن کے بعد سات اَور گائیں نکل آئیں جو نہایت بدصورت، مریل اَور دبلی پتلی تھیں۔ مَیں نے اَیسی بدشکل گائیں مُلک مِصر میں کبھی نہیں دیکھی تھیں۔ وہ دبلی پتلی، مریل اَور بدصورت گائیں اُن سات موٹی تازہ گایوں کو کھا گئیں جو دریا سے پہلے نکلی تھیں۔ لیکن اُس کے بعد بھی کویٔی یہ نہ کہہ سَکتا تھا کہ اُنہُوں نے کچھ کھایا ہے؛ وہ وَیسی ہی بدصورت نظر آئیں جَیسی پہلے تھیں۔ تَب میری آنکھ کھُل گئی۔ ”مَیں نے ایک اَور خواب میں سات موٹی اَور دانوں سے بھری ہُوئی اَچھّی بالیں بھی دیکھیں، جو ایک ڈنٹھل پر لگی ہُوئی تھیں۔ اُن کے بعد سات اَور بالیں نکلیں جو مُرجھائی ہُوئی، پتلی اَور پُوربی ہَوا کی ماری ہُوئی تھیں۔ اناج کی پتلی بالوں نے سات اَچھّی بالوں کو ہڑپ کر لیا۔ اِسے مَیں نے جادُوگروں کو بتایا لیکن کویٔی مُجھے اِس کا مطلب نہ سمجھا سَکا۔“ تَب یُوسیفؔ نے فَرعوہؔ سے کہا، ”فَرعوہؔ کے دونوں خواب ایک جَیسے ہیں۔ جو کچھ خُدا کرنے کو ہے اُسے خُدا نے فَرعوہؔ پر ظاہر کیا ہے۔ سات اَچھّی گائیں سات بَرس ہیں اَور اناج کے دانوں کی سات اَچھّی بالیں بھی سات بَرس ہیں۔ خواب ایک ہی ہے۔ سات دبلی اَور بدصورت گائیں جو بعد میں نکلیں وہ سات بَرس ہیں اَور اناج کے دانوں کی سات ناقص بالیں بھی جو پُوربی ہَوا کی ماری ہُوئی تھیں سات بَرس ہی ہیں؛ یہ قحط کے سات بَرس ہیں۔ ”جَیسا کہ مَیں نے فَرعوہؔ سے کہا، جو کچھ خُدا کرنے پر ہے؛ اُسے خُدا نے آپ پر ظاہر کیا ہے۔ سارے مُلک مِصر میں سات سال پیداوار کی فراوانی کے ہوں گے، لیکن اُن کے بعد سات سال قحط کے ہوں گے۔ جِن میں مِصر کی فراوانی والے سالوں کی یاد بھی باقی نہ رہے گی۔ اَور یہ قحط مُلک کو تباہ کر دے گا۔ مُلک کی فراوانی یاد نہ رہے گی، کیونکہ بعد میں آنے والا قحط نہایت ہی شدید ہوگا۔ فَرعوہؔ کو یہ خواب دو طرح سے دِکھایا گیا؛ اُس کی وجہ یہی ہے کہ خُدا نے اِس بات کا پُختہ فیصلہ کر دیا ہے اَور وہ جلد ہی اُسے عَمل میں لائیں گے۔ ”اَور اَب فَرعوہؔ کو چاہیے کہ وہ کسی صاحبِ فہم اَور دانشمند شخص کو تلاش کرے اَور اُسے مُلک مِصر پر مختار بنائے۔ جسے فَرعوہؔ یہ اِختیار دے کہ وہ اَیسے حُکاّم مُقرّر کرے، جو فراوانی کے سات سالوں میں مِصر کی پیداوار کا پانچواں حِصّہ وصول کریں اَور اُن آنے والے اَچھّے سالوں میں تمام اناج کی اشیائے خوردنی جمع کریں اَور فَرعوہؔ کے اِختیار کے ماتحت شہروں میں ذخیرہ کرکے اُس کی حِفاظت کریں۔ یہ اناج مِصر پر آنے والے قحط کے سات سالوں میں اِستعمال کیٔے جانے کے لیٔے حِفاظت سے رکھا جائے تاکہ مُلک کے لوگ قحط سے ہلاک نہ ہوں۔“ یہ تجویز فَرعوہؔ اَور اُس کے افسروں کو پسند آئی۔ چنانچہ فَرعوہؔ نے اُن سے پُوچھا، ”کیا ہمیں اِس جَیسا آدمی مِل سَکتا ہے جو خُدا کی رُوح سے معموُر ہو؟“ تَب فَرعوہؔ نے یُوسیفؔ سے کہا، ”چونکہ یہ سَب تُمہیں خُدا نے سمجھائی ہیں لہٰذا تُم سا صاحبِ فہم اَور دانِشور اَور کویٔی نہیں ہے۔ تُم میرے محل کے مختار ہوگے اَور میری ساری رعایا تمہاری فرماں بردار ہوگی۔ فقط تختِ شاہی کا مالک ہونے کے اِعتبار سے میں تُم سے برتر ہُوں گا۔“ چنانچہ فَرعوہؔ نے یُوسیفؔ سے کہا، ”مَیں تُجھے سارے مُلک مِصر کا مختار مُقرّر کرتا ہُوں۔“ تَب فَرعوہؔ نے اَپنی اُنگلی سے اَپنی مُہر والی انگُوٹھی اُتار کر یُوسیفؔ کی اُنگلی میں پہنا دی۔ اُس نے یُوسیفؔ کو نہایت اعلیٰ درجہ کے نفیس کتانی لباس سے آراستہ کیا اَور اُن کے گلے میں سونے کا گلوبند پہنایا۔ فَرعوہؔ نے یُوسیفؔ کو حاکمِ سلطنت کی حیثیت سے اَپنے دُوسرے رتھ میں سوار کیا اَور اُن کے آگے آگے یہ مُنادی کروائی، ”سَب دو زانو ہو جاؤ!“ یُوں فَرعوہؔ نے یُوسیفؔ کو سارے مُلک مِصر کا مختار بنا دیا۔ اُس کے بعد فَرعوہؔ نے یُوسیفؔ سے کہا، ”میں فَرعوہؔ ہُوں، لیکن سارے مُلک مِصر میں کویٔی شخص تمہارے حُکم کے بغیر ہاتھ یا پاؤں نہ ہلا سکےگا۔“ اَور فَرعوہؔ نے یُوسیفؔ کا نام ضَافنتھ پعنیحؔ رکھا اَور اُس نے اَونؔ کے کاہِنؔ پُطیفرعؔ کی بیٹی آسِناتھؔ کو اُس سے بیاہ دیا اَور یُوسیفؔ مِصر کے تمام مُلک میں دورہ کرنے لگے۔ جَب یُوسیفؔ مِصر کے بادشاہ فَرعوہؔ کی مُلازمت میں آئے تو آپ تیس بَرس کے تھے۔ اَور یُوسیفؔ فَرعوہؔ سے رخصت ہوکر سارے مُلک مِصر کا دورہ کرنے کے لیٔے روانہ ہویٔے۔ فراوانی کے سات سالوں میں مُلک میں کثرت سے پیداوار ہُوئی۔ یُوسیفؔ وہ تمام اشیائے خوردنی جو اِفراط کے اُن سات سالوں میں مُلک مِصر میں پیدا ہُوئیں جمع کرکے شہروں میں اُن کا ذخیرہ کرنے لگے اَور ہر شہر میں اُن کے اِردگرد کے کھیتوں میں اُگی ہُوئی اشیائے خوردنی بھی جمع کرتے گئے۔ یُوسیفؔ نے اناج سمُندر کی ریت کی مانند نہایت کثرت سے ذخیرہ کیا جِس کی مقدار اِس قدر زِیادہ ہو گئی تھی کہ یُوسیفؔ نے اُس کا حِساب رکھنا بھی چھوڑ دیا۔ کیونکہ وہ بے حِساب تھا۔ قحط کے سالوں کے آغاز سے قبل اَونؔ کے کاہِنؔ پُطیفرعؔ کی بیٹی آسِناتھؔ کے یہاں یُوسیفؔ سے دو بیٹے پیدا ہویٔے۔ یُوسیفؔ نے اَپنے پہلوٹھے کا نام منشّہ یہ کہہ کر رکھا، ”خُدا کی مہربانی سے مَیں نے اَپنی اَور اَپنے باپ کے گھرانے کی ساری مشقّت بھُلا دی ہے۔“ اَور یُوسیفؔ نے اَپنے دُوسرے بیٹے کا نام اِفرائیمؔ یہ کہہ کر رکھا، ”خُدا نے مُجھے اُس مُلک میں برومند کیا جہاں مَیں نے مُصیبت اُٹھائی۔“ مُلک مِصر کے اِفراط کے سات سال ختم ہو گئے اَور یُوسیفؔ کے کہنے کے مُطابق قحط کے سات سالوں کا آغاز ہُوا۔ حالانکہ دُوسرے تمام مُلکوں میں قحط پڑا تھا لیکن مِصر کے سارے مُلک میں خُوراک مَوجُود تھی۔ جَب مِصر کے سارے مُلک میں بھی قحط کی شِدّت محسُوس ہونے لگی تو لوگ روٹی کے لیٔے فَرعوہؔ کے آگے چِلّائے۔ تَب فَرعوہؔ نے مِصریوں سے کہا، ”یُوسیفؔ کے پاس جاؤ اَورجو کچھ وہ تُم سے کہے وہ کرو۔“ جَب قحط سارے مُلک میں پھیل گیا تو یُوسیفؔ نے گودام کھول کر مِصریوں کے ہاتھ اناج بیچنا شروع کر دیا کیونکہ تمام مُلک مِصر میں سخت قحط پڑا ہُوا تھا اَور سارے مُلکوں کے لوگ اناج خریدنے کے لیٔے یُوسیفؔ کے پاس مِصر میں آنے لگے کیونکہ ساری دُنیا شدید قحط کی لپیٹ میں تھی۔