خُروج 13:6-30

خُروج 13:6-30 UCV

تَب یَاہوِہ نے مَوشہ اَور اَہرونؔ سے بنی اِسرائیل اَور فَرعوہؔ مِصر کے بادشاہ کے بارے میں بات کی اَور اُنہیں حُکم دیا کہ بنی اِسرائیل کو مِصر سے نکال لے جایٔیں۔ اُن کے آبائی برادریوں کے سردار یہ تھے: رُوبِنؔ جو اِسرائیل کا پہلوٹھا بیٹا تھا، رُوبِنؔ کے بٹے حنوخؔ اَور پلوّؔ، حِضرونؔ اَور کرمی تھے۔ یہ رُوبِنؔ کی نَسل سے تھے۔ شمعُونؔ کے بیٹے یہ تھے: یموایلؔ، یمینؔ، اُہدؔ، یاکِن، ضُحرؔ اَور شاؤل جو ایک کنعانی عورت سے پیدا ہُوئے تھے۔ یہ شمعُونؔ کی نَسل سے تھے۔ اَور لیوی کے بیٹوں کے نام جِن سے اُن کی نَسل چلی یہ تھے: گیرشون قُہات اَور مِراریؔ۔ اَور لیوی کی عمر ایک سَو سینتیس بَرس کی ہوئی۔ اَور گیرشون کے بیٹے جِن سے اُن کی برادری چلی یہ تھے: لِبنیؔ اَور شِمعیؔ۔ اَور بنی قُہات یہ تھے: عمرامؔ، اِضہاؔر، حِبرونؔ اَور عُزّی ايل۔ قُہات ایک سَو تینتیس بَرس زندہ رہا۔ اَور بنی مِراریؔ یہ تھے: محلیؔ اَور مُوشیؔ۔ اَور لیویوں کی برادری جِن سے اُن کی پُشت کی مُطابق چلی یہی تھے۔ اَور عمرامؔ نے اَپنے باپ کی بہن یوکبِدؔ سے شادی کی جِس سے اُس کے بیٹے اَہرونؔ اَور مَوشہ پیدا ہویٔے۔ اَور عمرامؔ ایک سَو سینتیس بَرس زندہ رہے۔ بنی اِضہاؔر یہ تھے: قورحؔ نِفیگ اَور زکریؔ۔ اَور بنی عُزّی ايل یہ تھے: میشاایلؔ، اِیلضافنؔ اَور سِتھریؔ۔ اَور اَہرونؔ نے الیسبعؔ سے شادی کی جو عَمّیندابؔ کی بیٹی اَور نحشونؔ کی بہن تھی جِس سے اُس کے بیٹے نادابؔ، اَبِیہُو، الیعزرؔ اَور اِتمارؔ پیدا ہویٔے۔ اَور بنی قورحؔ یہ تھے: اَسّیر، اِلقانہؔ اَور ابیاسافؔ۔ اَور یہ بنی قورحؔ کی برادری تھی۔ اَور اَہرونؔ کے بیٹے الیعزرؔ نے پُطی ایل کی بیٹیوں میں سے ایک کے ساتھ شادی کی اَور اُس سے اُس کا بیٹا فِنحاسؔ پیدا ہُوا۔ اَور لیویوں کے آبائی گھرانوں کے سردار جِن سے اُن کی برادری چلی یہی تھے۔ اَور یہ وُہی اَہرونؔ اَور مَوشہ ہیں جنہیں یَاہوِہ نے فرمایا تھا، ”بنی اِسرائیل کو اُن کے لشکروں کے مُطابق مِصر سے نکال لے جاؤ۔“ یہ وُہی مَوشہ اَور اَہرونؔ ہیں جنہوں نے بنی اِسرائیل کو مِصر سے باہر نکال لے جانے کے بارے میں مِصر کے بادشاہ فَرعوہؔ سے بات کی تھی۔ جَب یَاہوِہ نے مِصر میں مَوشہ سے کلام کیا تھا تو مَوشہ سے فرمایا تھا، ”مَیں یَاہوِہ ہُوں۔ جو کُچھ میں تُمہیں کہُوں تُم اُسے مِصر کے بادشاہ فَرعوہؔ سے کہنا۔“ لیکن مَوشہ نے یَاہوِہ سے کہا، ”چونکہ میری زبان میں لکنت ہے اِس لیٔے فَرعوہؔ میری بات کیوں سُنے گا؟“