YouVersion Logo
تلاش

۱-کُرِنتِھیوں 1:7-40

۱-کُرِنتِھیوں 1:7-40 URDGVU

اب مَیں آپ کے سوالات کا جواب دیتا ہوں۔ بےشک اچھا ہے کہ مرد شادی نہ کرے۔ لیکن زناکاری سے بچنے کی خاطر ہر مرد کی اپنی بیوی اور ہر عورت کا اپنا شوہر ہو۔ شوہر اپنی بیوی کا حق ادا کرے اور اِسی طرح بیوی اپنے شوہر کا۔ بیوی اپنے جسم پر اختیار نہیں رکھتی بلکہ اُس کا شوہر۔ اِسی طرح شوہر بھی اپنے جسم پر اختیار نہیں رکھتا بلکہ اُس کی بیوی۔ چنانچہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں سوائے اِس کے کہ آپ دونوں باہمی رضامندی سے ایک وقت مقرر کر لیں تاکہ دعا کے لئے زیادہ فرصت مل سکے۔ لیکن اِس کے بعد آپ دوبارہ اکٹھے ہو جائیں تاکہ ابلیس آپ کے بےضبط نفس سے فائدہ اُٹھا کر آپ کو آزمائش میں نہ ڈالے۔ یہ مَیں حکم کے طور پر نہیں بلکہ آپ کے حالات کے پیشِ نظر رعایتاً کہہ رہا ہوں۔ مَیں چاہتا ہوں کہ تمام لوگ مجھ جیسے ہی ہوں۔ لیکن ہر ایک کو اللہ کی طرف سے الگ نعمت ملی ہے، ایک کو یہ نعمت، دوسرے کو وہ۔ مَیں غیرشادی شدہ افراد اور بیواؤں سے یہ کہتا ہوں کہ اچھا ہو اگر آپ میری طرح غیرشادی شدہ رہیں۔ لیکن اگر آپ اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکیں تو شادی کر لیں۔ کیونکہ اِس سے پیشتر کہ آپ کے شہوانی جذبات بےلگام ہونے لگیں بہتر یہ ہے کہ آپ شادی کر لیں۔ شادی شدہ جوڑوں کو مَیں نہیں بلکہ خداوند حکم دیتا ہے کہ بیوی اپنے شوہر سے تعلق منقطع نہ کرے۔ اگر وہ ایسا کر چکی ہو تو دوسری شادی نہ کرے یا اپنے شوہر سے صلح کر لے۔ اِسی طرح شوہر بھی اپنی بیوی کو طلاق نہ دے۔ دیگر لوگوں کو خداوند نہیں بلکہ مَیں نصیحت کرتا ہوں کہ اگر کسی ایمان دار بھائی کی بیوی ایمان نہیں لائی، لیکن وہ شوہر کے ساتھ رہنے پر راضی ہو تو پھر وہ اپنی بیوی کو طلاق نہ دے۔ اِسی طرح اگر کسی ایمان دار خاتون کا شوہر ایمان نہیں لایا، لیکن وہ بیوی کے ساتھ رہنے پر رضامند ہو تو وہ اپنے شوہر کو طلاق نہ دے۔ کیونکہ جو شوہر ایمان نہیں لایا اُسے اُس کی ایمان دار بیوی کی معرفت مُقدّس ٹھہرایا گیا ہے اور جو بیوی ایمان نہیں لائی اُسے اُس کے ایمان دار شوہر کی معرفت مُقدّس قرار دیا گیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آپ کے بچے ناپاک ہوتے، مگر اب وہ مُقدّس ہیں۔ لیکن اگر غیرایمان دار شوہر یا بیوی اپنا تعلق منقطع کر لے تو اُسے جانے دیں۔ ایسی صورت میں ایمان دار بھائی یا بہن اِس بندھن سے آزاد ہو گئے۔ مگر اللہ نے آپ کو صلح سلامتی کی زندگی گزارنے کے لئے بُلایا ہے۔ بہن، ممکن ہے آپ اپنے خاوند کی نجات کا باعث بن جائیں۔ یا بھائی، ممکن ہے آپ اپنی بیوی کی نجات کا باعث بن جائیں۔ ہر شخص اُسی راہ پر چلے جو خداوند نے اُس کے لئے مقرر کی اور اُس حالت میں جس میں اللہ نے اُسے بُلایا ہے۔ ایمان داروں کی تمام جماعتوں کے لئے میری یہی ہدایت ہے۔ اگر کسی کو مختون حالت میں بُلایا گیا تو وہ نامختون ہونے کی کوشش نہ کرے۔ اگر کسی کو نامختونی کی حالت میں بُلایا گیا تو وہ اپنا ختنہ نہ کروائے۔ نہ ختنہ کچھ چیز ہے اور نہ ختنے کا نہ ہونا، بلکہ اللہ کے احکام کے مطابق زندگی گزارنا ہی سب کچھ ہے۔ ہر شخص اُسی حیثیت میں رہے جس میں اُسے بُلایا گیا تھا۔ کیا آپ غلام تھے جب خداوند نے آپ کو بُلایا؟ یہ بات آپ کو پریشان نہ کرے۔ البتہ اگر آپ کو آزاد ہونے کا موقع ملے تو اِس سے ضرور فائدہ اُٹھائیں۔ کیونکہ جو اُس وقت غلام تھا جب خداوند نے اُسے بُلایا وہ اب خداوند کا آزاد کیا ہوا ہے۔ اِسی طرح جو آزاد تھا جب اُسے بُلایا گیا وہ اب مسیح کا غلام ہے۔ آپ کو قیمت دے کر خریدا گیا ہے، اِس لئے انسان کے غلام نہ بنیں۔ بھائیو، ہر شخص جس حالت میں بُلایا گیا اُسی میں وہ اللہ کے سامنے قائم رہے۔ کنواریوں کے بارے میں مجھے خداوند کی طرف سے کوئی خاص حکم نہیں ملا۔ توبھی مَیں جسے اللہ نے اپنی رحمت سے قابلِ اعتماد بنایا ہے آپ پر اپنی رائے کا اظہار کرتا ہوں۔ میری دانست میں موجودہ مصیبت کے پیشِ نظر انسان کے لئے اچھا ہے کہ غیرشادی شدہ رہے۔ اگر آپ کسی خاتون کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھ چکے ہیں تو پھر اِس بندھن کو توڑنے کی کوشش نہ کریں۔ لیکن اگر آپ شادی کے بندھن میں نہیں بندھے تو پھر اِس کے لئے کوشش نہ کریں۔ تاہم اگر آپ نے شادی کر ہی لی ہے تو آپ نے گناہ نہیں کیا۔ اِسی طرح اگر کنواری شادی کر چکی ہے تو یہ گناہ نہیں۔ مگر ایسے لوگ جسمانی طور پر مصیبت میں پڑ جائیں گے جبکہ مَیں آپ کو اِس سے بچانا چاہتا ہوں۔ بھائیو، مَیں تو یہ کہتا ہوں کہ وقت تھوڑا ہے۔ آئندہ شادی شدہ ایسے زندگی بسر کریں جیسے کہ غیرشادی شدہ ہیں۔ رونے والے ایسے ہوں جیسے نہیں رو رہے۔ خوشی منانے والے ایسے ہوں جیسے خوشی نہیں منا رہے۔ خریدنے والے ایسے ہوں جیسے اُن کے پاس کچھ بھی نہیں۔ دنیا سے فائدہ اُٹھانے والے ایسے ہوں جیسے اِس کا کوئی فائدہ نہیں۔ کیونکہ اِس دنیا کی موجودہ شکل و صورت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ مَیں تو چاہتا ہوں کہ آپ فکروں سے آزاد رہیں۔ غیرشادی شدہ شخص خداوند کے معاملوں کی فکر میں رہتا ہے کہ کس طرح اُسے خوش کرے۔ اِس کے برعکس شادی شدہ شخص دنیاوی فکر میں رہتا ہے کہ کس طرح اپنی بیوی کو خوش کرے۔ یوں وہ بڑی کش مکش میں مبتلا رہتا ہے۔ اِسی طرح غیرشادی شدہ خاتون اور کنواری خداوند کی فکر میں رہتی ہے کہ وہ جسمانی اور روحانی طور پر اُس کے لئے مخصوص و مُقدّس ہو۔ اِس کے مقابلے میں شادی شدہ خاتون دنیاوی فکر میں رہتی ہے کہ اپنے خاوند کو کس طرح خوش کرے۔ مَیں یہ آپ ہی کے فائدے کے لئے کہتا ہوں۔ مقصد یہ نہیں کہ آپ پر پابندیاں لگائی جائیں بلکہ یہ کہ آپ شرافت، ثابت قدمی اور یک سوئی کے ساتھ خداوند کی حضوری میں چلیں۔ اگر کوئی سمجھتا ہے، ’مَیں اپنی کنواری منگیتر سے شادی نہ کرنے سے اُس کا حق مار رہا ہوں‘ یا یہ کہ ’میری اُس کے لئے خواہش حد سے زیادہ ہے، اِس لئے شادی ہونی چاہئے‘ تو پھر وہ اپنے ارادے کو پورا کرے، یہ گناہ نہیں۔ وہ شادی کر لے۔ لیکن اِس کے برعکس اگر اُس نے شادی نہ کرنے کا پختہ عزم کر لیا ہے اور وہ مجبور نہیں بلکہ اپنے ارادے پر اختیار رکھتا ہے اور اُس نے اپنے دل میں فیصلہ کر لیا ہے کہ اپنی کنواری لڑکی کو ایسے ہی رہنے دے تو اُس نے اچھا کیا۔ غرض جس نے اپنی کنواری منگیتر سے شادی کر لی ہے اُس نے اچھا کیا ہے، لیکن جس نے نہیں کی اُس نے اَور بھی اچھا کیا ہے۔ جب تک خاوند زندہ ہے بیوی کو اُس سے رشتہ توڑنے کی اجازت نہیں۔ خاوند کی وفات کے بعد وہ آزاد ہے کہ جس سے چاہے شادی کر لے، مگر صرف خداوند میں۔ لیکن میری دانست میں اگر وہ ایسے ہی رہے تو زیادہ مبارک ہو گی۔ اور مَیں سمجھتا ہوں کہ مجھ میں بھی اللہ کا روح ہے۔